فطرت کا پیغام
تحریر: اے۔ ایم۔ خان
پس وپیش
ایک طرف امریکہ اور چین کے درمیان کرونا وائرس کے حوالے سے میڈیا میں الزامات اور الفاظ کی جنگ جاری ہے تو دوسری طرف اس وائرل وباء سے نمٹنے کیلئے پوری دُنیا میں اقدامات اورسائنس دانون کی تحقیق جاری ہے۔
31دسمبر کو چین کے علاقے ووہان سے رپورٹ ہونے والے کووڈ-19وائرس جسے ورلڈ ہیلتھ ارگنائزیشن بعد میں وباء قراد دی اب پوری دُنیا میں بے چینی پھیلا دی ہے۔
حالیہ رپورٹ کے مطابق ، یہ لکھتے وقت ، دُنیا میں 142 ممالک اور علاقوں میں یہ وائرس پھیل چُکی ہے جس سے ایک لاکھ اسی ہزار لوگ متاثر، سات ہزار لوگوں کی موت، اور اٹھتر ہزار نوسو ننانوے لوگ بیماری لگنے کے بعد دوبارہ صحت یاب ہو چُکے ہیں۔ پاکستان میں اب تک کے اعدادو شمار کے مطابق 247 لوگوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہو چُکی ہے جنہیں طبئ قید میں رکھ کر اُنکا علاج ہورہا ہے۔
یہ کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ کرونا وائرس دُنیا میں وباء کی شکل اختیار کرے گی، اور جنگل میں آگ کی طرح پھیل جائے گی۔ یہ وائرل بیماری اب پوری دُنیا میں ایک خوفناک ہیجان پیدا کرچُکی ہے جس سے پوری دُنیا میں نظام زندگی بُری طرح متاثرہو چُکی ہے۔ چین سے دلچسپ خبر ابھی آئی ہے کہ وہاں وائرس پر قابو کرنے کے بعد حالات دوبارہ معمول کے مطابق شروع ہو گئے ہیں۔
پہلی ، دوسری اور تیسری دُنیا میں اس وباء کے حوالے سے اقدامات ، حکمت عملی اور عوامی شعور وکردار بالکل مختلف ہے لیکں یہ وباء پوری دُنیا میں یکسر اثر انداز ہو چُکی ہے ، اور یہ انسان کو دوبارہ یاد دلا دی ہے کہ باہمی اشتراک، انحصار اور معاشرے میں متوازن نمو اور ترقی سسٹینبیلٹی کے لئے ضروری ہے۔
انسان نے نظام حکومت اور معاشرت تقسیم کے نظریات پر رکھدی اور وہ جو استحصالی نظام تھا اب بھی اُس طبقاتی نظام کے اصولوں پر چلی آرہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک دُنیا میں اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کی جنگ اور دوڑ میں سرگردان ہیں اور غریب ممالک بقا کی تگ ودو میں۔ اور یہ حیران کن پیداوار، منافع اور دولت کی مرکزیت ، چند ممالک اور چند لوگوں میں، چند مرکزی قوتوں کے پاس ہونے کی وجہ سے فیصلے اور پالیسی بھی اسی طرح بنتے ہیں جس میں اُن کے مفادات کو نقصان نہ ہو، جس سے فطرت میں غیر توازن اُسکا ایک عندیہ ہے۔
جسطرح جنگ، انقلاب اور کوئی واقعہ اپنے ساتھ ایک تبدیلی لاتی ہے اسی طرح یہ وائرل وباء ایک طرف دُنیا میں لوگوں کے آپس میِں “فاصلہ” رکھنے کی حد “چھ فٹ” مقرر کر دی جوکہ پہلے ہی سے معاشرے میں موجود لیکں غیرمتعیں تھی اور دوسری طرف مل کر ایک وباء کا مقابلہ کرنے پر مجبور کردی۔ اس وباء کی وجہ سے سارک ممالک کے نمائندے باہمی اشتراک سے اقدامات کرنے پر اتفاق کئے جسکی ایک مثال ہے۔
فطرت نے دُنیا کو یہ احساس دلایا ہے کہ متوازن اور اجتماعی بہتری “ہولسٹک ڈولپمنٹ” کتنی ضروری ہے۔ جب تک تیسری دُنیا سے یہ وباء ختم نہ ہو سکتی، پہلی اور دوسری دُنیا ، میں بھی اس وائرس سے محفوظ نہیں ہوسکتی۔
انسان کو فطرت نے اب اُس چوراہے پہ کھڑا کیا ہے جس میں سب کو ، مجبوراً ،ساتھ مل کر زبان زد خاص وعام دشمن (کرونا وائرس) کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس مقابلے میں چند لوگوں کے پاس جنگی ہتھیار، ضروریات اور وسائل موجود ہیں اور اُن کے ساتھ موجود دوسرے لوگوں کے پاس نہ جنگی ہتھیار، نہ ضروریات کی چیزیں اور نہ وسائل۔ اور سب سے زیادہ مسلہ اس طبقے کو پتا ہی نہیں کہ یہ کس کی جنگ ہے ، کیوں لڑا جاتا ہے ، اور لڑائی کہاں سےشروغ کرنی ہے۔ اُن میں اکثریت کو نہ جنگ کے بارے میں کوئی علم اور نہ لڑنے کے وسائل موجود ہیں ، اور جسے تھوڑی بہت معلومات ہیں وہ اوہام پرستی اور دوقیانوسی سوچ اور ذرائع پر یقیں رکھتے ہیں ۔ تیسری دُنیا میں اس قسم کے لوگوں کی اکثریت بستی ہے۔ پاکستان میں یہ لوگ کچی آبادی اور دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جنہیں دوسرے الفاظ میں “پیرافیرل ریجن” بھی کہہ سکتے ہیں۔ فطرت نے دوبارہ اُن علاقوں کی طرف دُنیا کی نظر مبذول کی ہے اور یہ فطرت کا اصل پیغام ہے۔