Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

اندلس کے شب و روز

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

یہ علامہ اقبال، اباد شاہ پوری نسیم حجازی اور ممتازمنگلوری کے ساتھ ذہنی تعلق کا کمال ہے کہ میں نے اندلس میں مستنصر حسین تارڑ کی طرح خود کو اجنبی خیال نہیں کیا۔ مجھے یہاں کا چپہ چپہ دیکھا بھالا محسوس ہوا۔ پہلی بار یہ احساس ہوا کہ مطالعہ چاہے محدود بھی ہو کسی نہ کسی دن کا م آتا ہے۔

غرناطہ میں گھومتے ہوئے جگہ جگہ المدینہ، الامیرہ، الجزیربتہا لحضری اور الزہرا کے سائن بورڈ نظر آئے تو ایسے لگا جیسے اس ملک کا نام اب بھی اندلس ہی ہو۔ جگہ جگہ المدینہ اور الز ہرا کے سائن بورڈ نظر آئے تو ایسے لگا جیسے میں کسی اسلامی ملک میں پھر رہا ہوں۔ فاروق نے یہاں مراکش کے ایک مسلمان شہری کی طرف سے کھولے گئے حلال ریسٹورنٹ کا نام اور پتہ نوٹ کرلیا تھا۔ شام کے وقت شہر کے بڑے چوک میں لوٹن برطانیہ سے آنے والے مدثربھا ئی مل گئے ان کے ہمراہ فیملی تھی انہوں نے حلا ل ریسٹورنٹ کا پتہ پوچھا تو فاروق نے ان کے مو بائل میں مذکورہ ریسٹورنٹ کا پتہ ڈال دیا۔ ایک گھنٹہ بعد ہم وہاں پہنچے تو مدثر بھائی بچوں کو لیکر کھانا کھارہے تھے ہم نے دل ہی دل میں کہا ڈھونڈ نے سے خدا بھی ملتا ہے۔

مالاگہ کی پارکینگ میں برمنگھم سے آئے ہوئے اختر بھائی ملے۔ آپ کا تعلق ایبٹ اباد سے ہے مجھے انہوں نے ٹوپی سے پہچانا۔ ہم ایک ساتھ پارکنگ سے باہر آئے۔ وہ شاہی محل دیکھنے جا رہے تھے۔ فیملی کو لیکر کاسل کی طرف روانہ ہوئے ہم نے مشہور مصور اور ابیسٹریکٹ آرٹ کے امام پکاسو کا عجائب گھر دیکھنا تھا وہ دیکھیں گھر بادشاہ کا ہم مو قلم کی شان دیکھتے ہیں پکا سومالا گہ میں پیدا ہوئے تھے عمر کا زیا دہ حصہ فرانس میں گذارا۔ فن کی دنیا میں نام پیدا کیا عجائب گھر کی 8گیلیریاں ہیں۔ جن میں 140نمونے رکھے ہیں۔ گائیڈ ایک آڈیو ہے جو دروازے پر ٹکٹ کے ساتھ مو بائل میں ڈاون لوڈ کیا جاتا ہے۔

پکا سونے معا شرتی ناہمواری اور عورت پر ہونے والے ظلم کو اپنی تخلیقی صلاحیت سے سینکڑوں پہلووں سے دکھایا ہے۔ گھوڑے پر سوار ان کے 8سالہ بیٹے کی تصویر واحد شہکار ہے جو ابلاغی آرٹ میں ہے۔ سردار جی اور زور ولی خان کو بھی سمجھ آسکتی ہے۔ اشبیلیہ کو سائن بورڈ میں سیویلہ لکھا جاتا ہے یہاں عبدا لرحمن اول کا لگایا ہوا بے نظیرباغ ہے۔ مجھے کھوار کے لوک ادب میں نامعلوم شاعر کا کلام یاد آیا یہ ایک گیت ہے جس کا نام ’’لا و زانگ‘‘ ہے۔ شاعر اپنے محبوب سے کہتا ہے رقیب کو لیکر دوبارہ باغ میں مت آو یا تو باغ کو جلا کر ہنگامہ برپا کرونگا یا رقیب کو مار کر نکلونگا اور تیری گردن پر خون ہوگا۔ یہاں صورت حال ایسی ہے کہ لا لو زنگ کا باغ رقیب کے قبضے میں ہے اور بے چارہ عاشق خون کے گھونٹ پینے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتا۔

قرطبہ کے شہر میں درو بام سے گفتگو ہوتی ہے۔ مسجد قرطبہ کی بعلی گلی میں ایک سائن بورڈ دیکھا اُس پر جلی عربی حروف میں ’’مطعم‘‘ لکھا ہوا تھا اندر جھانکا تو حلا ل کھانوں کا ریسٹورنٹ تھا۔ ریسٹورنٹ کے قریب ہی جدید مسجد ہے جو نماز کے اوقات میں کھلتی ہے ریسٹورنٹ کی چھت پر بھی نماز کی جگہ ہے جہاں مسلمانوں کے بچے قرآن اور نماز سیکھتے ہیں۔ ریسٹورنٹ کا مالک محمد طٰہٰ مراکش کا رہنے والا ہے۔ اُس نے اردن اور فلسطین میں بھی وقت گذارا ہے۔ یہاں فلسطینی کھانا بقلاوہ اور مراکش کی مشہور ڈش تاجین کھانے کا اتفاق ہوا۔ اگلی گلی میں یہودیوں کا معبد سینا گاگ ہے۔ اس معبد کے سامنے ایک مسلمان کا گھر ہے جس کو عجائب گھر میں تبدیل کیا گیا ہے۔ انگریزی میں اس کا مختصر تعارف ایک ورق پر لکھ کر پلا سٹک میں بند کیا گیا ہے۔ عربی یا انگریزی میں کوئی بروشر یا کارڈ وغیرہ نہیں، گھر کی دو منزلوں کے 7کمروں میں قدیم نوادرات سجا ئے گئے ہیں۔ عجائب گھر کی نمایاں چیزوں میں فلسفی ابن رشد کا مجسمہ، جعرافیہ دان ابن خوردابہ کا گلوب اور اندلس میں کاغذ بنانے کی پہلی مشین قابل ذکر ہیں۔ اس مشین میں کپا س کو دھننے کے بعد سات مرحلوں میں کاغذ تیار کرنے کا عملی نمو نہ رکھا ہوا ہے۔ مشین لکڑی کا بنا ہے اور اس کی ساخت بھی سادہ ہے اس مشین سے بنے ہوئے کاغذ پر لکھی ہوئی عربی کتابوں کے اوراق بھی الماریوں میں سجائے ہوئے ہیں۔ ایک ورق پر ابن بر دالا صغر کا شعر مل گیا ما اعجب شان القلم یشرب ظلمتہ ویلفظ نور القلم کی کیا عجیب شان ہے۔ کالی سیاہی پیتا ہے اور الفاظ میں روشنی بکھیرتا ہے۔

ایک گلی میں اُمیون کے نام سے ریسٹورنٹ ہ میں ملا جو سپین کے مسلمان خاندان کا ہے شہر کا ثقا فتی مرکز دریا کے کنارے رومی پل کے مینار کے سامنے تھیٹر ہے۔ اس تھیٹر میں ہر شام مو سیقی کی محفل ہوتی ہے جس کو بوڑھے، جوان، مردوزن سب دیکھتے اور سنتے ہیں اس پر سردھنتے اور جھومتے ہیں۔ شہر سے نکلتے ہوئے مسجد قرطبہ کے مینار پر الوداعی نظر پڑتی ہے تو دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی ہیں اور صاحب لزو مات ابو العلا معری(ع) کا شعر یا دآتا ہے جیسے علا مہ اقبال نے اردوکے قالب میں ڈھالا تقدیر کے

قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!