Inayatullah Faizi

مانیٹرنگ کی مانیٹرنگ

داد بیدا د

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
ما نیٹرنگ کے لئے اردو لفظ ’’نگرانی‘‘ ہے اور اینڈی پنڈنٹ مانیٹرنگ سسٹم کو آزادانہ نگرانی کا نظام کہا جا ئے گا لیکن انگریزی الفاظ، تراکیب اور اصطلاحات ہماری روزمرہ بول چال کا لازمی حصہ بن چکے ہیں اگر ہم سکشین افیسر کو ’’منصرم صیغہ‘‘ لکھینگے تو نا مانوس نظر آئیگا بلکہ ایک معمہ لگیگا اسی طرح ما نیٹرنگ کو نگرانی لکھنا بھی مسلہ پیدا کرے گا

صوبائی حکومت نے 9سال پہلے محکمہ تعلیم کے لئے اور 8سال پہلے محکمہ صحت کے لئے ازاد انہ نگرانی کا الگ نظام قائم کر کے اس نظام کو فعال طریقے سے چلا نے کا پورا طریقہ کار وضع کیا تھا اور اس پر عمل کر کے مثبت نتاءج اخذ کئے گئے تھے مختلف ذراءع سے مسلسل خبریں آرہی ہیں کہ ازادانہ نگرا نی کے نظا م میں دراڑیں آچکی ہیں اب اس کو دوبارہ فعال بنا نے کے لئے ایک اور آزادانہ نگران ادارے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے زما نہ قدیم کی مختصر کہانی اکثر سننے میں آتی ہے ایک باد شاہ نے گھوڑا پالا تھا جو اس کو بہت محبوب تھا

بادشاہ نے سوچا اس گھوڑے کا سائیس کام چور لگتا ہے اس پر داروغہ مقر کرنا چاہئیے، داروغہ آنے کے بعد مدت گذری تو باد شاہ کو خیال آیا کہ گھوڑا روز بروز کمزور ہو رہا ہے داروغہ کے اوپر ایک محتسب بھی ہونا چاہئیے، محتسب نے چارج سنبھالا مدت گذری تو گھوڑا مرگیا بادشاہ نے کنسلٹنٹ بلا یا اور حکم دیا کہ تفتیش کی جائے میرا گھوڑا کیوں مرگیا ، کنسلٹنٹ نے اپنی تفتیش مکمل کرکے رپورٹ دیدی کہ داروغہ اور محتسب کے آنے کے بعد ذمہ داری تقسیم ہوئی کسی نے بھی خود کو ذمہ دار خیال نہیں کیا سائیس بے چارا کیا کرتا اُس نے اپنی بساط بھر کوشش کی مگر گھوڑا جانبر نہ ہو سکا

صو بائی حکومت نے محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت کے لئے جو داروغہ اور محتسب رکھا تھا وہ بادشاہ کے داروغہ اور محتسب سے بہتر تھا سائیس کی نگرانی ہوتی تھی سکولوں اور ہسپتالوں میں ملازمین کی حا ضری میں سو فیصد بہتری آئی تھی پھر نہ جانے کس کی نظر لگ گئی اور چلتا ہوا نظام اچانک رک گیا رپورٹوں کے مطابق سکولوں کے اندر اساتذہ کی حاضری رفتہ رفتہ کم ہو کر 2014کی پوزیشن پر آگئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مانیٹرنگ کے نظام میں خلل پیدا ہوا ہے اس خلل کے تین درجوں کاجا ئز ہ لیا گیا ہے پہلا درجہ، ما نیٹرنگ ٹیموں کے باقاعدہ شیڈول بنا کر دورے کرنے کا تھا اُس میں نمایاں کمی آگئی ہے، دوسرا درجہ مانیٹرنگ ٹیموں کی رپورٹوں کے جائزے کا تھا اس میں بھی کمی آگئی ہے تیسرا درجہ رپورٹوں کی بنیا د پر غیر حاضر اساتذہ کی تنخواہوں سے ماہانہ کٹوتی کا تھا وہ بھی نظر نہیں آرہا

اب انڈی پنڈنٹ مانیٹرنگ سسٹم کی نگرانی کے لئے ایک اور انڈی پنڈنٹ مانیٹرنگ سسٹم کی ضرورت پیدا ہوگئی ہے اس کی وجہ کیا ہے وجہ یہ ہے کہ دفتری نظام نے اول روز سے انڈی پنڈنٹ ما نیٹرنگ سسٹم کو قبول نہیں کیا تھا اب بھی دفتری نظام کے اندر اس کو بیرونی عنصر یا خارجی ما دہ قرار دیا جا تا ہے محکمہ تعلیم نے مسلسل 9سال رپورٹ دیدی کہ مانیٹرنگ کا نظام کا میابی سے چل رہا ہے اب معلوم ہو تا ہے کہ ان رپورٹوں میں پوری سچائی نہیں تھی، اب بھی صورت حا ل ایسی ہے کہ نیچے کی سطح سے جو رپورٹیں اوپر بھیجی جا تی ہیں ان میں ’’سب اچھا‘‘ دکھا یا جا تا ہے اصل بات اعلیٰ حکام سے چھپائی جا تی ہے اساتذہ کی تنظیموں نے بھی انڈی پنڈنٹ ما نیٹرنگ کے نظام کو دل و جا ن سے قبول نہیں کیا بچوں کے والدین اور سکول سے متعلق کمیو نیٹی نے بھی مثبت تبدیلی کا کھل کر خیر مقدم نہیں کیا اب بھی ما نیٹرنگ سسٹم روبہ زوال ہونے پر کسی کا رد عمل نظر نہیں آرہا

اب لازم ہے کہ قدیم باد شاہ کی طرح جدید محکموں کو بھی کنسلٹنٹ رکھنا چاہئیے، کنسلٹنٹ یہ دیکھے گا کہ کمزور ی کہاں سے شروع ہوئی کیا اسا تذہ کرام کی طرف سے عدم تعاون کا کوئی ثبوت ہے یا نہیں ڈسٹرکٹ ایجو کیشن افیسر کے دفتر کا رد عمل کیا ہے ما نیٹرنگ کو نا کام بنا نے میں اس دفتر کا کیا کر دار ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود ما نیٹرنگ کا پہلا جذبہ اب بھی مو جود ہے یا نہیں ایک اچھے نظام کی کا میا بی کے بعد اس کو روبہ زوال ہو تے ہوئے ہم سے دیکھا نہیں جا تا صو بائی حکومت کو اعلیٰ سطح پر اس کا بے لا گ جا ئزہ لینا ہو گا اور آئیندہ کے لئے اس نظام کی کا میابی کو ہر ممکن کو شش کے ذریعے یقینی بنانا ہوگا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *