Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

کتابوں کی صنعت

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
یہ خوش آئند بات ہے کہ کراچی، لاہور اور اسلا م اباد میں ادبی میلوں کے کامیاب انعقاد کے بعد پشاور میں ادبی میلے کا اہتمام ہونے جا رہا ہے اور یہ میلہ بھی کامیابی سے منعقد ہوگا اس کا سلسلہ بھی کراچی کی طرح پشاور میں بھی روا یتی انداز میں چل پڑے گا

ہم نے نئی نسل کو ادب اور کتابوں کی طرف مائل کرنے کے لئے اس کا نام انگریزی میں ’’پشاور لٹریری فیسٹول‘‘ رکھ دیا ہے اور انگریزی میں نام رکھنا کسی بھی سر گر می کو جا ری رکھنے کی ضما نت ہو تی ہے مجھے یا د ہے کہ آج سے 10سال پہلے کرا چی لڑیری فیسٹول میں سید احمد شاہ صاحب نے سوال اٹھا یا تھا کہ یہاں پورے ملک سے اور بیرون ملک سے ادب دوست احباب جمع ہو ئے اہم ادبی مو ضو عات پر سیر حا صل گفتگو ہوئی ضیا محی الدین، انور مقصود اور دیگر بلند پایہ شخصیات کو ہم سب نے دل کھول کر داد دی مگر کیا ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ اس ادبی میلے کے کامیاب انعقاد کے بعد ملک میں کتابوں کی صنعت کو فائدہ ہوگا

کتابوں کی صنعت بھی چینی کی صنعت کی طرح ترقی کرے گی 10سال بعد یہ سوال اپنی جگہ موجو د ہے، وطن عزیز میں ہر صنعت کی اپنی لابی ہے، چینی کی صنعت سے وابستہ شخصیات ہر حکومت میں اہم وزار توں پر فائز ہو تے ہیں ان کی لابی سب سے زیادہ مضبوط ہے، ٹیکسٹائل کی صنعت اپنی طاقتور لابی رکھتی ہے مگر کتابوں کی صنعت لاوارث ہے اس کی کوئی لابی نہیں کاغذ کی دس اقسام میں سے کسی بھی قسم کو سستا کرنے کا کوئی طریقہ اب تک سامنے نہیں آیا، نیوز پرنٹ کے لئے دیگر ممالک میں جو ترغیبات موجو د ہیں وہ ہمارے ہاں نا پید ہیں 400صفحا ت کی کتاب اگر پڑوسی ممالک میں 250روپے کی آتی ہے تو ہما رے ہاں اس کی قیمت 900روپے سے کم نہیں ہوتی لاہور میں بڑے بڑے بک سٹالوں پر آپ کو موقع ملتا ہے کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے ملک کی کتابوں کا موازنہ قیمتوں کے حساب سے کرسکیں

یہ جون 1985کا واقعہ ہے راولپنڈ ی میں پا نچویں کل پا کستان اہل قلم کا نفر نس منعقد ہوئی جنرل ضیاء الحق نے افتتاح کیا شفیق الرحمن اکا د می ادبیات پاکستا ن کے صدر نشین تھے فیض احمد فیض، افتخار عارف، احمد فراز اور کئی نا مور اہل قلم ملک سے باہر تھے احمد ندیم قاسمی نے کلیدی خطبہ پڑھا اپنے خطبے میں انہوں نے جنرل ضیا ء کو مخا طب کرکے کہا کہ ملک میں ادب تخلیق ہو رہا ہے لیکن اد بی پر چے دم توڑ رہے ہیں کتا بوں کی صنعت آخری سانسیں لے رہی ہے پھر انہوں نے واقعہ سنا تے ہوئے کہا ایک بین الاقوامی کانفرنس میں پڑوس ملک کے ادیبوں نے کہا کہ ہمارے ہاں کتا ب 2لا کھ کی تعداد میں شاءع ہو تی ہے پھر اس کے جو ایڈیشن آتے ہیں تو وہ 50لا کھ کی تعداد کو چھو لیتی ہے

اس کے بعد انہوں نے پا کستان میں کتا بوں کی اشاعت کا حا ل پو چھا وطن کی عزت کا سوال تھا میں نے کہا ہمارے ہاں کتا ب 20ہزار کی تعداد میں چھپتی ہے یہ بات سنکر ان لو گوں نے با قاعدہ دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اگر میں سچ بو لنے کے شوق میں یہ تعداد ایک ہزار بتا تا تو ان کی حر کت قلب بند ہو جا تی پھر انہوں نے کہا صورت حا ل یہ ہے ایک ہزار کی تعداد میں کتا ب بھی مصنف اور شاعر اپنی جیب سے خرچ کر کے چھپوا تا ہے اُس کو شاءع کرنے والا کوئی نا شر نہیں ملتا، اُس کی دو چار کا پیاں خرید نے والی لا ئبریری نہیں ہے

کا نفرنس میں جسٹس جاوید اقبال نے شکا یت کی کہ میرے والد گرامی کو مصور پا کستان ، مفکر پا کستان اور شاعر مشرق کے خطا بات دیئے گئے ہیں ان کی کتابوں پر مجھے پڑوسی ملکوں سے رائیلٹی آتی ہے اپنے ملک میں کوئی رائیلٹی نہیں ملتی کیونکہ یہاں انٹیکچول پرا پر ٹی راءٹ کے قانون پر کوئی عمل نہیں کر تا ، گو یا یہ قصہ کر اچی لٹریری فیسٹیول سے بھی پہلے کا ہے بقول حفیظ جا لندھری ’’نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں‘‘ تلخ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 10برسوں میں وطن عزیز کے اندر جس صنعت کو سر اٹھا نے کا موقع نہیں دیا گیا وہ کتا بوں کی صنعت ہے ایک زمانہ تھا جب کرنا فلی سے سستا کا غذ آتا تھا اب تو چارسدہ، مردان، لاہور اور ملتان سے بھی سستا کاغذ مارکیٹ میں نہیں آتا، نیوز پرنٹ کو دی جا نے والی رعا یت بھی ختم ہو چکی ہے دکھ کی با ت یہ ہے کہ ملک میں پرنٹ اینڈ پبلی کیشن کی صنعت اپنی کوئی لابی نہیں رکھتی، کوئی پبلشر کتاب چھاپتا نہیں کوئی لائبریری کتاب خریدتی نہیں یہ اس دور ستم کا المیہ ہے۔

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!