واقعاتی ڈرامہ
پس وپیش
اے.ایم.خان
پہلے ڈرامہ سنتے اور پڑھتے تھے اب ڈرامہ دیکھتے ہیں۔یہ دیکھنے کا سفر وہاں سرکاری ٹی۔وی سے شروع ہو جاتا ہے، بعد میں پرائیوٹ چینلز پر اور اب سوشل میڈیا پر بھی ڈرامے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جب ڈرامہ سننے اور پڑھنے کا دور تھا تو کوئی قصہ سنتا یا پڑھتا تو وہ دوسروں کو بھی سناتا تھا۔ اب وہ روایت ختم ہو چُکی ہے کہ لوگ ڈرامہ دیکھنے کے بعد منہ دیکھتے ہیں اور دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔
بعض لوگ ڈرامہ کے بہت شوقین ہوتے ہیں تو بعض وقتاً فوقتاً دیکھ لیتے ہیں، اور ایسا بھی ہے کہ بعض لوگ ڈرامہ دیکھتے ہی نہیں۔ یہ صرف ڈرامہ دیکھنے والوں کا ایک جائزہ ہے، ڈرامہ کرنے والوں کی بات تو الگ ہے کیونکہ بات کردار پر آجاتی ہے۔
ڈرامہ میں بعض کردار تو لوگوں کو بہت پسند ہوتے ہیں۔ نہ صرف بچے بلکہ بڑے بھی اُس اداکار کی پسند سے اپنی پسند، بات، چال ڈھال اور ڈائیلاگ اپنالیتے ہیں۔ اور یہ انداز ایک زمانے سے ہوتے آرہے ہیں۔
ایک طرف دیکھیں تو یہ موسولینی کے فسطائیت کے نظریے کے قریب ہے کہ عوام کو کچھ سمجھ نہیں آتی تو اسی لئے اُنہیں دیکھنے اور پڑھنے کی چیزیں بھی دی جائے، تو دوسری طرف ہم ریاست کی مہربانی سے شہرہ آفاق ‘ڈرامہ’ اپنے گھروں میں مفت دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اب آپ یہ نہ پوچھیں کہ اسطرح کام کا اثر معاشرے پر کیا ہوتا ہے کیونکہ یہاں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔
کیا حالت ایسی ہے کہ جو ڈرامہ بنتا ہے اُسے دکھانا اور اس کے بارے میں بات کرنا مشکل ہو چُکا ہے؟ آپ کی اپنی رائے مختلف ہوسکتی ہے، میرے رائے کے مطابق ایسی کوئی بات نہیں ہے کم ازکم ڈرامہ کی بات ڈرامائی انداز میں کرسکتے ہیں۔
گزشتہ سال فیس بک کے ایک پیج سےبچے کے ہراسمنٹ کے حوالے سے انگریزی میں ایک پوسٹ سامنے سے گزرا۔ یہ پوسٹ تکلیف دہ تھی لیکں اُس پوسٹ پر پہلا کمنٹ نہایت دلچسپ تھی جس میں گلم گلوچ کے بعد اُس فرد نے لکھا تھا کہ کیا ضروری ہے کہ یہ سب کچھ دُنیا والوں کو بتاتے کہ ہمارے علاقے میں یہ واقعہ ہوا ہے۔ اگر خواہ مخوا ہ لکھنا چاہتا تھا تو اپنے مقامی زبان میں لکھتے تو دوسرے لوگوں کو سمجھ نہیں آتا۔
کیا یہ فلسفہ اب بھی رائج عام تو نہیں ہے۔
اگر ایک ایسا ڈرامہ ہوا ہو اور پھر اُس کی خبر آجائے تو وہ ڈرامائی خبر بن جاتی ہے۔
مارکیٹ اور من گھڑت خبر کے حوالے سے ایک تجزیہ کار نے کیا خوب لکھا کہ دُنیا میں جمہوری اور آمرانہ حکومتیں اس کا اندازہ نہیں کرتے کہ صحافی اور رپورٹر کی اظہار رائے کی آزادی پر پابندی اور قدغن لگانے سے کتنا نقصان ہورہا ہے۔ ہم نے اب تک حکومتوں کی بات کی ہے معاشرے کی پابندی پر کسی نے بات نہیں کی ہے۔ بہرحال شاید نقصان کا اندازہ اُس وقت ہوجاتا ہے جب یہ کسی بندےکے ساتھ ہو جاتا ہے۔
کیا صوبائی حکومت نے ۲۰۱۳ ء میں معلومات تک رسائی کا قانون پاس کرکے عوام پر احسان اور ادارون کو ہلکان کر چُکا ہے؟ اس پر آراء مختلف ہوسکتے ہیں لیکن سب اس بات کو مانتے ہیں کہ خبر درست ، شفاف ،غیر جانبدارانہ اور اسمیں ذاتی پسندوناپسند شامل نہ ہو۔
اچھا ، مجھے آج یہ معلوم ہوا کہ اسطرح کا ایک قانون بھی ہے جس سےہمیں معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے اور ادارے معلومات کی فراہمی کے پابند ہیں ۔ ظاہری بات ہے اس قانون پر عملداری اُس کا عملی پہلو ہے۔
اگر وہاں کوئی نظریاتی ڈرامہ جب ریلیز ہوجاتی ہے تو اُسکا آخری قسط بہت اہم ہوتی ہے کیونکہ اُس میں کہانی مکمل ہوجاتی ہے یعنی اُس نظریے کی تکمیل تو ہوجاتی ہے۔ باقی سب کچھ بُھول کر لوگ صرف آخری قسط پر اکتفا کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شروع میں جو کچھ ہوا ہےخیر آخری قسط اُن سب باتوں کو صاف کر دیتی ہے۔ لیکن اس کا معاشرے پر ایک اثر ہوتا ہے وہ ایک کیفیت ہے۔ یعنی جو نظریاتی ڈرامہ کا آخری قسط دیکھتا ہے اُس میں بات کرنے کی سکت ختم ہو جاتی ہے جسطرح وہ ڈرامہ جس کے آخری قسط میں ایک کم عمر غیر مسلم لڑکی آخر میں مسلم ہوجاتی ہے اور سٹیج سمٹ جاتے ہی سب دیکھنے والے اُس کیفیت کا شکار ہوگئے تھے۔
اور جو اُس ڈرامے کے بارے میں پڑھ رہے تھے جیسے ہی سٹیج میں یہ ڈرامہ ختم ہوئی تو اُن میں بھی وہ کیفیت طاری ہوئی یعنی پڑھنے والوں میں بھی بات کرنے کی سکت باقی نہ رہی۔ بالکل اسی طرح یہ واقعاتی ڈرامہ کی تحریر آخری قسط لکھتے ہی سمٹ کر رہ گئی۔