عرفان صاحب کی نئی کتاب
داد بیداد
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
عرفان صاحب کی نئی کتاب تاریخ چترال کا اردو ترجمہ ہے اور یہ عرفان صاحب کی آٹھ کتابوں کے بعد شائع ہوئی ہے پہلے جو کتابیں شائع ہوئیں ان میں چہل احا دیث اور قصیدہ بردہ عربی سے ترجمہ کی گئی ہیں کلیات محوی کو فارسی سے ترجمہ کیا گیا ہے تذکرہ شعرائے چترال اور چترال کے لوک گیت تحقیقی کتابیں ہیں فخر انبیاء نعتیہ کلام کا مجموعہ ہے جس پر ان کو حکومت پاکستان کی طرف سے سیرت ایوارڈ ملا، تاریخ چترال فارسی سے ترجمہ ہوا ہے اور یہ 1921ء میں شائع ہونے کے بعد جالائی گئی تاریخ کے گم شدہ نسخے سے ماخوذ ہے میرا عرفان صاحب کے ساتھ نصف صدی سے زیادہ مدت کا یارانہ ہے انیگلو ور نیکلر ہائی سکول چترال میں ہماری پہلی ملاقات 1965ء میں ہوئی 1970ء میں ہم دونوں نے ایک ہی کمرہ جماعت سے میٹرک پاس کیا وقت کے ساتھ ہماری دوستی نے ادبی، تحقیقی اور تنقیدی نشستوں کے حوالے سے نیا رخ اختیار کیا چند سال پہلے انہوں نے اپنے دادا علامہ محمد غفران کی تاریخ چترال نسخہ 1921ء کا اردو ترجمہ کرنے کی خواہش کااظہار کیا تومیں نے اس کی وجہ پوچھی انہوں نے کہا 1962ء میں میرے مرحوم چچا لفٹننٹ غلام مر تضیٰ اور خزانچی وزیر علی شاہ کی کا وشوں سے نئی تاریخ چترال کا جو نسخہ شائع ہوااس کے مطالعے سے قاری کومعلوم نہیں ہوتاکہ کہاں تک علامہ محمد غفران نے لکھا تھا اور کہاں سے غلام مر تضیٰ نے لکھنا شروع کیا، 1921ء والے نسخے کا ترجمہ شائع ہوگا تو قدیمی نسخہ اپنی اصل حالت میں سامنے آئیگا تحقیقی، تدوینی اور منطقی اعتبار سے یہ بات درست تھی اس سے پہلے جب میں علامہ محمد غفران کی سوانح حیات پرکام کررہا تھا تو مجھے ان کی یا دداشتوں کی ڈائری سے معلوم ہواتھا کہ شہزادہ سردار نظام الملک کرنل لاکہارٹ کے دورہ چترال کے بعد انہی کی دعوت پر 1885ء میں ہندوستان کے دورے پر گئے، دہلی، آگرہ اور کلکتہ میں ان کی ملاقاتیں ہندوستانی ریا ستوں کے نوابوں سے ہوئیں، ہر جگہ ان سے ریاست چترال کی تاریخ کا سوال ہوا، واپس آکر انہوں نے امان الملک کو یہ بات بتائی تو امان الملک نے ان سے کہا کہ تم مرزا غفران کو لیکر ریاست کی تاریخ پر کام شروع کرو، اس طرح تاریخ چترال کا پہلا مسودہ 1893ء میں مکمل ہوا، مگر زیور طبع سے اراستہ نہ ہو سکا دوسرا نسخہ 1919ء میں تکمیل کو پہنچا اور 1921ء میں شائع ہو کر آیا تو اس کی تمام کاپیاں جلادی گئیں اس لئے اس کو تاریخ سوختہ کا نام بھی دیا جاتا ہے کتاب 12ابواب پر مشتمل ہے پہلے 7ابواب میں جعرافیہ، معاشرت اور تاریخی واقعات آگئے ہیں آخری 5ابواب چند نامور شخصیات، نامور قبیلوں، علما ء مشائخ، شعراو فصحا، بذلہ سنچ اور حاضر جواب شخصیات کا ذکر ہے جیسا کہ تاریخ نویسی کا دستور ہے علامہ محمد غفران نے واقعات کے تحقیق کے لئے عربی اور فارسی کی قدیم کتب سے استفادہ کیا ہے عرفان صاحب کا ترجمہ پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ 1921ء کے نسخے میں عہد رئیسہ کاذکر صرف ایک پیراگراف تک محدود ہے عہد رئیسہ کے 8حکمرانوں کا ذکر نہیں ہے جو 1962ء کے نسخے میں تفصیل کے ساتھ ملتا ہے، بعض اہم واقعات کے ہجری اور عیسوی سال بھی 1962ء والے نسخے سے مختلف ہیں مثلا ً رئیسوں سے حکومت کٹور خاندان کو ملنے کا سال 1962والے نسخے میں 1595ء آیا ہے 1921ء کے نسخے میں 1110ھ بمطابق 1699عیسوی لکھاہے، بعض واقعات کے سن محض 18یا 20سال آگے پیچھے ہوئے ہین جب 1893ء کا نسخہ سامنے آئیگا تو پتہ لگیگا کہ اس اختلاف کی وجہ کیا ہے، اگر فارسی اور اردو کو سامنے رکھ کر دونوں کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فارسی کی طویل رزمیہ نظمیں بھی تر جمہ نہیں ہوئیں اصل حالت میں بھی اردو کا حصہ نہیں ہیں، نیز حکمرانوں اور درباروں کے لئے فارسی میں جو القاب اور اداب 1921کے نسخے میں آئے ہیں ان کو اردو ترجمہ میں نہیں لیا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مترجم نے اپنا بھی اور قاری کا بھی وقت بچانے کی فکر کی ہے اور لفظی ترجمے پربا محاورہ ترجمے کو فوقیت دی ہے اس کی خوبی یہ ہے کہ اسلوب کے اعتبار سے کتاب ترجمہ کے بجائے تخلیقی کاوش لگتی ہے تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ جنوبی ایشیاء کے پسماندہ پہاڑی یا میدانی جگہوں میں لوگ تاریخ میں اپنے باپ دادا کا نام ڈھونڈتے ہیں جس کے باپ دادا کانام نہ ملے وہ کتاب کو مسترد کرتا ہے، حا لانکہ تاریخ واقعات کے گرد گھو متی ہے افراد اور اشخاص کے گرد نہیں گھومتی جس طرح تانگے میں گھوڑے کو آگے باندھ کر تا نکہ اس کے پیچھے لگایا جاتا ہے اس طرح لکھنے والا واقعہ کو لے لیتا ہے پھر چند نام بھی اس واقعے کے ضمن میں آجاتے ہیں تاریخ میں مردم شماری یا ٹیلیفون ڈائریکٹری کی طرح اشخاص وافراد کی فہرستیں نہیں دی جا تیں اس اصول پر علامہ محمد غفران کی تاریخ چترال 1921ء کا نسخہ پورا اترتا ہے منشی عزیز الدین کی لکھی ہوئی تاریخ چترال بھی علا مہ محمد غفران کی فارسی تاریخ کا ترجمہ ہے البتہ مترجم نے 1893ء کے نسخے کا ترجمہ کیاہے مصنف نے 1885ء سے 1919ء تک جن ماخذات سے استفادہ کیا ہے ان کا ذکر متن کے اندر آیا ہے ان میں سب سے اہم ماخذ شاہنامۂ سیر ہے جو مرزا محمد سئیر کی رزمیہ کتاب ہے اور نظم کی صنف میں ہے اس کے علاوہ تاریخ رشیدی اور اکبر نامہ بھی اہم ماخذ ات ہیں کسی بھی تخلیقی، تنقیدی یا تحقیقی کتاب کی بڑی خوبی یہ ہو تی ہے کہ وہ نئے مباحث کی بنیاد رکھے نئی کتابوں کا پیش خیمہ بنے، یونیورسٹی آف گجرات، قائد اعطم یونیورستی اسلام اباد یا خیبر پختونخوا کی کسی یونیورسٹی نے اگر تاریخ چترال 1921ء کے نسخے کو سامنے رکھ کر مصنف کے دو مزید نسخہ جات اور منشی عزیز الدین کی تاریخ چترال کے ساتھ اس کا موازنہ کرکے نئی تحقیق سامنے لانے کے لئے ایم فل یا پی ایچ ڈی سطح کا تحقیق مقالہ لکھوائے تو تاریخ کے خفیہ گوشوں سے پردہ ہٹانے میں مدد ملے گی اور دیے سے دیا جلتا رہے گا۔