!وادی بروغل جہاں ریاست سوتیلی ماں ہے
شجاعت علی بہادر
یہ وادی بروغل ہے! پاکستان کے نقشے پر ایک ایسا خطہ جہاں کے باسیوں کے مسائل شاید حکمرانوں کے کانوں تک کبھی نہیں پہنچ پاتے۔ ایک ایسا علاقہ جہاں زندگی کسی امتحان سے کم نہیں، جہاں بنیادی سہولیات خواب لگتی ہیں اور جہاں کے لوگ اپنی مٹی سے بے پناہ محبت کے باوجود ریاست کی بے حسی کا شکار ہیں۔
ذرا سوچیے! برفانی طوفان آئے، راستے بند ہوگئے، کھانے پینے کی اشیاء ناپید، بیماروں کے لیے کوئی طبی امداد نہیں، اور حکومت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ بروغل کے عوام پر یہ قیامت بار بار ٹوٹتی ہے، لیکن مجال ہے کہ حکمرانوں کی نیند میں ذرا سی بھی خلل آئے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو سالہا سال سے اپنی سرحدی چوکیوں پر بلا معاوضہ ملک کی حفاظت کر رہے ہیں۔ جو واخان کی سرحد پر کھڑے ہو کر وطن عزیز کی آن بان اور شان کے محافظ ہیں۔ مگر ریاست ان کو کیا دیتی ہے؟ ایک سڑک تک نہیں! وہی سڑک جو ان کی دنیا سے واحد رابطہ ہے، جو ہر برف باری میں کٹ جاتی ہے، اور پھر مہینوں تک کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔
اور ہمارے منتخب نمائندے؟ وہ تو الیکشن کے دنوں میں خود ووٹ مانگنے بھی نہیں آتے! ان کے لیے بروغل اتنا دور ہے کہ وہاں جانا انہیں وقت کا ضیاع لگتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے کسی ایجنٹ کو بھیج دیتے ہیں، جو ان کے نام پر ووٹ مانگ کر چلا جاتا ہے۔ جیسے ہی انتخابات ختم ہوتے ہیں، بروغل کا نام ان کی یادداشت سے مٹ جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ کئی دہائیوں سے اسی دھوکے میں جی رہے ہیں کہ شاید اس بار کوئی نجات دہندہ آئے گا، شاید اس بار کوئی ان کے مسائل حل کرے گا۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا۔
کبھی کسی حکمران نے سوچا کہ ان لوگوں کے دلوں میں کتنی تکلیف ہوگی؟ جب وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے خواب دکھاتے ہیں مگر اسکول ویران ملتے ہیں، جب وہ بیماروں کو کندھوں پر اٹھا کر میلوں دور لے جاتے ہیں، جب وہ بھوک اور سردی سے لڑتے ہیں، مگر پھر بھی پاکستان کے حق میں نعرے لگاتے ہیں۔
یہاں کے باسی سوال کرتے ہیں: کیا ریاست صرف بڑے شہروں تک محدود ہے؟ کیا پہاڑوں میں رہنے والوں کا کوئی حق نہیں؟ کیا ہمیں پاکستانی کہلانے کے لیے کسی اور زمین پر پیدا ہونا چاہیے تھا؟
آج بروغل کے باسی حکومت، ضلعی انتظامیہ اور منتخب نمائندوں سے صرف ایک ہی گزارش کر رہے ہیں: خدا کے لیے ہمیں جینے کا حق دے دو! ہماری سڑکیں بحال کر دو، ہماری مشکلات کا مداوا کرو، ہماری آواز سنو! کہیں ایسا نہ ہو کہ کل کو یہ خاموش پہاڑ بھی تمہاری بے حسی پر ماتم کرنے لگیں۔