عورت مارچ – عورتوں کے حقوق یا انکا تنزل
اس سالانہ جلوس جس کو عورت مارچ کا نام دیا گیا ہے اسمیں شامل اکثر عورتوں کا جائزہ لیں تو 35 سال سے لے کر 50 سال تک کی طلاق یافتہ یا دو تین مردوں سے شادی کی قلیل مدت کا بندھن گزاری ہوئی عورتیں ہوتی ہیں۔ ان کا بنیادی مسئلہ یہی ہوتا ہے کہ یہ گھر سنبھالنے کی اہلیت سے عاری ہوتی ہیں اور اپنی عزت کا ان کو پاس نہیں ہوتا یا شعور ہی نہیں ہوتا۔ کچھ ان میں جنس پرست بھی ہوتی ہیں جو مختلف مردوں کا ساتھ چاہتی ہیں۔
اس میں خرابی کا عنصر یہ ہوتا ہے کہ جب ان کے لباس میں جسم بھرے ہوتے ہیں تو ان کی وقعت بھی ہوتی ہے اور یہ کچھ کشش بھی رکھتی ہیں لیکن جب ان کی صورتیں صرف سنگھار کے ہاتھ مجبور ہو جاتی ہیں اور جسم مرجھا جاتے ہیں تو یہ شدید ذہنی و جسمانی تنہائی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اسکے بعد یہ اپنے آخری سال کافی اذیت کی زندگی گزارتی ہیں جبکہ انکی ہم عصر دوسری خواتین کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ان کا دل بہلا رہی ہوتی ہیں اور وہ بزرگ خواتین خوش ہو ہو کر انکو دعائیں دیتی رہتی ہیں۔
،محمد الیاس احمد
گولدور، چترال۔