Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

قابل دید

داد بیداد

 

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

یورپ میں دو مہینے قیام رہا۔ دو ملکوں میں گیا دونوں آنکھیں کھول کر دنیا دیکھنے کا موقع ملا قابل دید کام اور مقامات بہت تھے کچھ کو دیکھا کچھ کو دیکھنے کی حسرت رہی۔ مجھے یہ حسرت رہی کہ کوئی مجھ سے شناختی کارڈ یا پاسپورٹ اور ویزا مانگے کوئی گاڑی کو روکے کوئی بھری گاڑی میں ٹوپی دیکھ کر مجھے گاڑی سے اتارے اپنے ملک میں جگہ جگہ ناکے ہوتے تھے جگہ تلاشی ہوتی تھی دیار غیرمیں ایسا لگتا تھا جیسے یہ لوگ ناکے لگانا بھول گئے ہوں۔

مجھے یہ بھی حسرت رہی کہ یہاں پولیس دیکھوں، پولیس کی وردی دیکھوں ، فوجی دیکھوں فوج کی وردی دیکھوں، نہ ہوائی اڈوں پر ٹوٹی نہ ریل کے سٹیشنوں پر نہ عوام کی ہجوم کی دیگر جگہوں پر یہ حسرت ٹوٹ سکی، یورپ سے واپسی سفر تک یہ حسرت دل میں رہی اب وطن واپسی پر جی بھر کے دیکھوں گا کیوں کہ دل وحشی اس کا عادی ہے یہ بھی نہیں دیکھا کہ بجلی چلی گئی یا گیس کی لوڈ شیڈ نگ ہوئی یا نلکے میں پانی نہیں آرہا، تعجب ہوا یہاں کا نظام انسان چلارہے ہیں یاجنات اور فرشتے فاروق نے کہا سسٹم انسانوں کے ہاتھ میں مگر وہ تنخواہ سے اوپر آمدنی کے لئے عوام کے ساتھ فراڈ اور گھپلے نہیں کرتے ہر روز دل چاہتا تھا کہ اخبار اٹھالوں اس میں آرمی چیف اور چیف جسٹس کی تصویریں دیکھوں مگر ایک دن بھی کسی اخبار میں جج یا جرنیل کی تصویر نہیں آئی۔

ایک دن میں نے واہ کینٹ کے ندیم صاحب سے پوچھا کیا قومی دن کے موقع پرا ن کی تصویر آتی ہیں اُس نے ہنستے ہوئے کہا مجھے 44سال ہوگئے میں نے آج تک اخبارات میں ایسی تصویریں اور خبریں نہیں دیکھیں میں نے جگہ جگہ حسب توفیق شاپنگ کی مگر کسی دکاندار نے پلاسٹک کے شا پر میں کچھ بھی نہیں ڈالا صابن، برش اور قلم کاغذ کے لئے کاغذ کے شاپر ہوتے ہیں کپڑا، تو لیہ، جرسی، کوٹ وغیرہ کے لئے کپڑے کے شاپر ہوتے ہیں میں نے بہت کوشش کی کہ کسی دن باہر نکلوں اور راستہ بند ہو، میں پوچھوں راستہ کیوں بند ہے کوئی مجھے بتائے کہ صاحب بہادر کا موٹر کاروان آنے والا ہے، یہ کاروان گذرے گا تو راستہ کھلے گا مگر افسوس ہوا دو مہینوں کی شہر گردی میں وہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوا میں نے اسد علی بیگ لقانی سے پوچھا ایسا کیوں ہےاس نے کہا مجھے 6سال ہوگئے صدر، وزیراعظم اور دوسرے وی آئی پی خواتین و حضرات پا اپنی گاڑی میں یا ٹیکسی میں اکیلے سفر کرتے ہیں موجودہ وزیراعظم خاتون ہیں وہ اپنی بیٹی کے سکول آئی تو ٹیکسی سے اتری اور ٹیکسی میں واپس گئی میلونی کی اس سادگی کو خبر کا درجہ دیکر اخبار میں نہیں لایا گیا کیونکہ یہ روز کا معمول ہے میں نے کہا خبر کی تعریف بھی یہی ہے کہ روز کا معمول نہ ہو صحافت کے اساتذہ کہتے ہیں کہ کتا بندے کو کاٹے تو خبر نہیں ہوتی بندہ کتے کو کاٹے تو خبر ہوتی ہے۔

قابل دید مقامات اور کاموں کی لمبی فہرست ہے سب سے زیادہ قابل دید کام یہ ہے کہ اٹلی اور سپین میں ٹریفک دائیں ہاتھ چلتی ہے پیدل کے لئے بھی یہی اصول ہے سکوٹی اور سائیکل کو پیدل کے راستوں پر چلایا جاتا ہے سکوٹی پاکستان میں دستیاب نہیں یہ سادہ سواری ہے جس کا ایک پیڈل اور ایک ہینڈل ہوتا ہے پیڈل کے نیچے ٹائیر ہوتے ہیں اس پر تین بندے بھی کھڑے ہوسکتے ہیں لطف کی بات یہ ہے کہ یہ کسی کی ملکیت نہیں میونسپلٹی ان کو راستوں پر ادھرا دھر پارک کر تی ہے لوگ آکر سواری کرتے ہیں اور جہاں جا تے ہیں وہاں چھوڑ دیتے ہیں اس کا کرایہ قریبی فلنگ سٹیشن پر خود کار مشین وصول کرتی ہے اور یہ کلومیٹر کے حساب سے ہوتی ہے ہر شہر میں کوئی نہ کوئی مقام ایسا ہوتا ہے جہاں صرف اس محلے کی گاڑی جاسکتی ہے اُس کے پاس پر مٹ ہوتا ہے اگر کوئی ناواقف اس اصول کی خلاف ورزی کر ے تو روکنے والا کوئی نہیں کیمرے میں دو بار اس کا ریکارڈ آتا ہے ایک آتے وقت اور ایک جاتے وقت رات کو اس کے فون پر دو بار خلاف ورزیوں کا جرمانہ آتا ہے 50یا 60یو روفوراً جمع کرکے اپنی جان چھڑاتا ہے۔

قابل دید مقامات میں روم کی قدیم ترین عمارت پنتھیون اور روم کے بھی ہیں، سینٹ میری کا چرچ ، گری بلدی کی یادگار اور ہسٹارک سنٹر کی عمارات بھی دیکھنے کے قابل ہیں جو مقام متاثر کر تا ہے وہ ایک پرانا ابشار ہے یہ بھی ہسٹارک سنٹر میں واقع ہے یہ 27قبل ازمسیح کے قلعے کا صحن تھا قلعہ ختم ہوا ایک دیوار پر باد شاہ کے مجسمے کے ساتھ آبشار موجود ہے جسے ٹریوی آبشار کہا جاتا ہے اس کے ساتھ ایک توہماتی قول وابستہ ہے جو سیاح اس کے تالاب میں سکہ ڈال کر جا ئے گا وہ ضرور واپس آئیگا گذشتہ سال 15لا کھ یورومالیت کے سکے جمع ہوئے تھے ایسی کہانیاں بہت ہیں کہاں تک سنو گے۔

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!