عبد الغنی دول ماما
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
رمضان المبارک کا دن تھا عبد الغنی دول ماما کو ہسپتال سے گھرلائے چند روز ہوئے تھے کافی کمزور ہوچکا تھا افطاری سے پہلے بیٹے سے کہا میری لاٹھی لے آو باہر نکلتا ہوں کمرے سے نکل کر چمن میں گیا تھوڑی دیر چہل قدمی کی پھر واپس کمرے میں آکر پلنگ پر بیٹھ گیا بیٹے سے پوچھا افطاری میں کتنا وقت رہ گیا، بیٹے نے کہا 15منٹ رہے گئے، اُس نے کہا 15منٹ میں تو بندہ اپنے پاک اللہ کے حضور حاضر ہوکر افطاری کر سکتا ہے یہ کہہ کر اُس نے سرہانے پر سر رکھا اپنے پاوں سیدھے کئے انگشت شہادت سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے کلمہ طیبہ پڑھا اور ان کی روح پرواز کر گئی وہ کوئی بڑا عالم نہیں تھا صاحب جُبہ و دستار بھی نہیں تھا اس کے باو جود اپنے خا لق اور ما لک کے ساتھ اس کا ایسا تعلق تھا کہ ولیوں کی طرح مو ت کو گلے لگا لیا علا مہ اقبال نے کہا تھا
نشان مر د مومن بتو گویم
چومر گ آید تبسم بر لب اوست رحمن با با کا مشہور شعر ہے
پہ یو قدم تر عر شہ پوری رسی
ما لید لے دے رفتار د درویشانو
عبد الغنی دول ما ما چترال کے خوب صورت گاوں بروز میں گل خان کے ہاں 1946 میں پیدا ہوا ان کے والد اس وقت چترال سکاوٹس میں ملازم تھے، عبد الغنی دول ماما نے قرآن ناظرہ کے ساتھ واجبی تعلیم گاوں میں حاصل کی، وجیہہ صورت نو جوان تھے، سریلی آوازکے ما لک تھے فی البدیہہ، شاعر اور گلو کار تھے ان کی مو نچھیں کانوں کو چھوتی تھیں اور قیا مت ڈھا تی تھیں ، ایک خو ش آواز گلو کار کی حیثیت سے بہت جلد مشہور ہوئے ، تلا ش معاش کی فکر ہوئی تو پو لیس میں بھر تی ہوئی ، دل نہیں لگا تو نو کر ی چھوڑ دی ، شہروں کی خا ک چھانی واپس چترال آئے تو دوستوں نے اصرار کر کے جانباز فورس میں بھر تی کر وایا 1981ء میں ان سے میری پہلی ملا قات ہوئی تو جانباز فورس میں تھے ان کی ڈیو ٹی چترال ائیر پورٹ پر لگی ہوئی تھی افغا نستان میں روسی فو ج کی طرف سے فضا ئی حملوں کا خطرہ تھا انٹی ائیر کرافٹ گن کو 24گھنٹے الرٹ رکھا جا تا تھا گن کے اوپر کمیو فلا ج تھا نیچے 6فٹ گہرا مور چہ تھا ، رات کے مخصوص پہر بستی کے گیدڑ ، لومڑ اور کتے ایک ساتھ بھو نکتے تو لو گ سمجھ جا تے کہ دول ما ما اپنے معمول کے لئے مو ر چے سے با ہر آگیا ہے ان کے قریبی دوست بھی رات کے اُس پہردول ما لما کے پا س آجا تے، معمول کے بعد دول ماما واپس مور چے میں اتر جا تے تو چاروں طرف خاموشی چھا جا لتی، دور دور کے لو گ دول ما ما کو شا دی بیا ہ کے موقعوں پر تفریح کے لئے دعوت دیتے دول ما ما 60کلو میٹر یا 100کلو میٹر دور بھی چلے جا تے ساری رات گاتے اور نا چتے ہوئے گذار تے صبح ان کے سامنے پیسے ، ہتھیار رکھے جا تے ، ان کو گھوڑا پیش کیا جا تا ، گھوڑا دلہا کو بخش دیتے ، ہتھیار بھی دلہا کو دے دیتے اور نقد انعا مات دوسرے فنکاروں میں بانٹ دیتے،
ان کا طرز ملنگوں والا اور ان کا اسلوب باد شاہوں والا تھا اسی حلیے میں علا قے کے سب سے بڑے عالم نقشبندی سلسلے کے صاحب طریقت بزرگ مولانا محمد مستجا ب کی خد مت میں حاضر ہوتے حضرت سے دعا لیتے لطاءف پر ضر بیں لگواتے تو لوگ حیراں ہوتے کہ یہ کیا کررہا ہے پھر ایک دن آیا جب دول ما ما نے مونچھیں کا ٹ کر داڑھی رکھ لی ، سر پر سفید صا فہ کی پگڑی باندھی اور مو لانا الیاس کی تبلیغی جما عت میں چار چلے لگا ئے ، جنید جمشید کی طرح سابقہ معمولات کو تر ک کر کے نئے معمولات کا راستہ اپنا یا رومانوی شاعری کی جگہ صو فیا نہ شاعری شروع کی ، پہلے ان کے رومانوی گیتوں میں یہ گا نا بہت مشہور تھا
بو سو نی اے تہ شیئلیوں کیہ انداز ہوئے
کا رہے ویلٹی نا گہہ کورہ ما یونو کہ ہواز گوئے
اب نئے رنگ وآہنگ میں ان کا کلام آنے لگا ، اپنے مر شد مولانا محمد مستجاب;231; کی جدائی پر انہوں نے طویل مر ثیہ پڑھا
اویونو مولانا مہ چھترارو لیگینہ
بغاءو تھے دردانہ اوا بہچیتم دوندونہ
مولانا راہی اریر چھرار و خا لی اریر
باد شاہی نو مشکیتائے تا نتے فقیری اریر
ایک صو فیا نہ کلا م میں دنیا کی بے ثبا تی اور مو ت کے وقت انسان پر بیتنے والی حا لت کا ذکر یوں کر تے ہیں
دنیو کو روم نہ کو س پورہ بوئے
شیرین ژا نو تے سرا سیمہ بوئے
پونگو دو غورہ تھے نمو نہ بوئے
کوس سورہ کی ہائے ہتوت پتہ بوئے
عیچ ٹھخ بلا یونی قالیب سمہ بوئے
ہر دی نو ہو بخیر تا نتے دمہ کوئے
دول ما ما کا کلا م پڑھنے سے زیا دہ سننے سے تعلق رکھتا ہے 78سال کی عمر میں بھی ان کی آواز 16سال کے جوان کی طرح تھی اپنی سریلی آواز میں کلا م سنا تے تو سما ں با ندھ دیتے تھے ان کی وفات سے کھوار ادب کو جو نقصان ہوا وہ صدیوں پورا نہ ہو سکے گا ان کا آبائی گاوں بروز شاعروں کی سر زمین ہے شہزادہ تجمل شاہ محوی متوفی 1838ء سے لیکر رحمت شیر جہاں ، عبد الحسین ، مشرف خان ، نعمت خان ، رحمت الٰہی اور مہر بان الٰہی حنفی تک بروز کے شعراء کی پوری کہکشان ہ میں ملتی ہے حنفی کا تعلق نعمت خان کی تیسری نسل سے ہے، اس وقت ان کے والد رحمت الہٰی 91سال کی عمر کے ہیں اور حیات ہیں عبد الغنی دول ما ما کے بڑے بیٹے رحمت غنی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ان کے خاندان میں دول ما ما کی علمی و ثقافتی میراث آگے برھے گی انہوں نے بتا یا کہ توکل اور درویشی ان کے دادا گل خان کی میراث ہے جنہوں نے انگریزوں کے دور میں فوج سے ریٹائر منٹ کے بعد پنشن لینے سے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ گھر بیٹھ کر انگریز کا وظیفہ کس خو شی میں کھا ونگا جب تک کام کیا تنخوا لے لی دول ماما نے توکل اور درویشی میں نام کمایا اللہ پاک ان کی قبر کو جنت کا نمو نہ بنا کر دول ماما کی روح کو دائمی راحت نصیب کرے (آمین)