حُسن انتخاب
درحقیقت
ڈاکٹر محمد حکیم
گزشتہ دنوں پورے ملک میں جنرل انتخابات منعقد کئے گئے۔ یہ انتخابات چترال میں بھی تاریخی اعتبار سے قابل یادگار رھیں جس میں مقامی تجربہ کار امیدواروں کے علاوہ ایک بیرونی مہمان امیدوار نے بھی حصہ لیا۔ تمام امیدواروں میں سے مہمان امیدوار نے اس الیکشن مہم میں شان و شوکت اور دبدبہ کے ساتھ کود پڑا۔اورچترال میں الیکشن میں برتری حاصل کرنے کا ایک نیا طریقہ کار وضع کیا اور یہ امیدوارجمعیت علماء اسلام مولانا فضل ا لرحمٰن گروپ پاکستان کے ایم این کے سیٹ پر الیکشن لڑنے والا ملکی سطح پر نام گرامی سرمایہ دار سنیٹر طلحہ محمود صاحب تھا جس نے جب اپنا الیکشن مہم شروع کیا تو مقامی لوگ اور مقامی امیدوار سب اتنے خوف زادہ ھوئے جیسے کسی پرندہ کے گھونسلے پر اس کے چھوٹے بچوں پر سانپ نےحملہ آور ھوا ھو۔
سنیٹر صاحب کی چترال کے الیکشن میں انٹری نے علماء کرام کو دوگروہوں میں منقسم کیا۔علماء کرام کوحلال اور حرام کا فتوٰی دینے پر مجبور کیا۔
ھوا کچھ یوں کہ محترم طلحہ صاحب کو کثیر تعداد میں اسکےجماعت کےکارکنوں نے تاریخی استقبال کیا اور اسکی آرزو کی پیروی کرتے ھوئے اسے چترال 1 قومی اسمبلی کی نشست کے لئے معتبر اور باصلاحیت قرار دیکر خود نشست ان کے لئے خالی کیں۔پاکستان کی تاریخ میں چترال کی منفرد روایت رہی ھے۔کہ یہاں پر جب کوئی بھی مہمان چپڑاسی سے لیکر جنرل مشرف مرحوم تک تشریف لے آتے رھے ھیں۔سب کو اپنے استطاعت سے بڑھ کر عزت آفزائی کی ھیں۔اور ان کے عزت و اکرام کرنے میں سب نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑا ھے۔
چنانچہ اپنے گزشتہ روایات کو مدنظر رکھ کر چترالی قوم نے سنیٹر طلحہ محمود صاحب کو جتنی عزت دی وہ تاریخ کا سنہرا حصہ بن گیا۔ موصوف سنیٹر جب اپنے الیکشن مہم کے سلسلے پر جلسہ کرنے بعض جگہوں پر تشریف لے گئے۔تو مرد عورتوں نے راستوں کے دونوں اطراف کھڑے ھوکر اس کا استقبال زوردار نعروں کے گونج پر کیا۔اور اس کے استقبال کا ایک نمایان پہلو یہ تھا۔کہ طلحہ محمود کو گھوڑے پر سوار کرکے دوسرے گھوڑ سوار آس پاس کھڑے ھوکر اسے جلوس کے شکل میں جلسہ گاہ تک پہنچایا۔اور یہ اعزاز پاکستان بننے کے بعد کسی مقامی فرد عام کو اور نا کسی فرد خاص کو تا ہنوز نصیب ھوا۔
چترال کے کئی مساجد میں سردیوں کے موسم میں انگیٹی میں گرم ھوکر مختلف امیدواروں کے حمایتی لوگوں نے آپس میں تلخ کلامی کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔
چترال میں اگر چہ طلحہ محمود صاحب نے قبل از انتخابات بھی کچھ امدادی اور صدقاتی کام کیا تھا۔وہ کچھ اسطرح ھوا کہ میں چترال کے پریڈ گراونڈ کے پاس سے ایک دن گزر رہا تھا۔تو مجمعہ کی صورت میں ہر فرد کو قطاروں میں اپنے سامنے آٹا کی ایک بوری اور کچھ گھریلو اشیاء رکھا ھوادیکھا۔پوچھنے پر معلوم ھوا کہ سنیٹر طلحہ محمود صاحب سیلاب زادہ گان کے لئے پیکیج تقسیم کررہا تھا۔اور یہ غالبًا سیلاب کے بعد کا وقت تھا۔اسی وقت ملک کے مایہ ناز کرکٹر شاہد آفریدی صاحب بھی تشریف لآئے تھے۔اس نے بھی چترال میں متاثرین سیلاب میں اسی طرح ہی سیلاب کے امدادی سامان تقسیم کیا۔لیکن فرق صرف یہ نکلا کہ طلحہ صاحب کی طرف سے کیا ھوا صدقہ الیکشن کےلئے تمہید تصور کیا گیا۔اور جب کہ شاہد آفریدی کا اب کوئی نام لینے والا بھی نہیں ھے۔اور نہ اس کا امداد کسی کو یاد رہا۔لیکن طلحہ محمود کا الیکشن کے دوران صدقہ بھی ہر پانچ سال بعد دوران انتخابات گونج کرتا رھے گا۔
میں نے جب اس وقت دونوں کے فعل صالح دیکھا مجھے شک ھوا کہ اس کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی پوشیدہ منصوبہ ھوگا۔ورنہ اتنا صدقہ کون کرتا ھے۔چلیں پروردگار دونوں کا صدقہ اپنے حضور میں قبول فرماکر ان کے مغفرت کا ذریعہ بنائیں۔آمین
جب الیکشن کا دن قریب آتا گیا۔تو موصوف نے برسر عام قوم چترال میں بلا تفریق مسلک اور مذہب ،غریب امیر چھوٹے بڑے اکثر لوگوں میں نقد پیسہ تقسیم کیا۔ یہاں تک کہ اس کا یہ ادا سارے ملک میں وائریل ھوا۔اور یوں لوگ عجیب و غریب کشمکش کے شکار ھوئے۔جنہوں نے لیا وہ بھی خفاھوئے۔اور جنہوں نے نہیں لیا تو وہ پیشیمان ھوئے۔وہ اس لئے کہ یہ چیز کراچی کے مدرسہ میں مشہور زمانہ استادالاساتذہ مجتہد العصر ،فقہیہ المسمین نے بھی واضح نہیں کیا۔کہ دوسرے لوگ ووٹ کے دوران کسی کو پیسہ دیتے ھیں حرام ھے۔لیکن سنیٹر صاحب کا پیسہ کس زمرہ میں آئے گا۔اور یوں یہ معاملہ حلال اور حرام کے درمیان مشکوک اور مبہم ہی رہا۔
اسی طرح جونہی وقت الیکشن قریب آیا۔تو چترال کے طول و عرض میں جلسے منعقد کئے گئے۔سنیٹر طلحہ صاحب پیسے برساتے رھے۔اور دوسرے جماعت کے رھنما نے التجاء کیا اور درخواست دیکر الیکشن سے پہلے ٹرکوں میں پہنچے ھوئے پیکیچز کی تقسیم رکوایا۔
جب الیکشن اپنے اختتامی مرحلے میں داخل ھوا تو شروعات میں سنیٹر طلحہ صاحب کافی ووٹوں سے سبقت لے رھا تھا۔لیکن بعد میں ان علاقوں میں انکے خلاف کافی ووٹ پول کئے گئے۔جہاں پر اس نے کافی پیسہ لوگوں میں تقسیم کیا تھا۔جہاں سے امید وفا باندھا تھا۔وہاں سے طوفان نکلا۔اور سب آرؤں کو بہا لے گیا۔
چترالی قوم نے بھی بہترین مہمان نوازی کا ثبوت دیا۔اور کافی عزت و اکرام سے طلحہ محمود صاحب کو نوازا۔ھمیں معلوم ھے کہ طلحہ محمود صاحب ایک اعلٰی اور بہترین انسان ھیں۔اس کے کار خیر دنیا کے کونے کونے تک پہنچے ھوئے ھیں۔اور سورج کی روشنی کی طرح روشن ھیں۔آخر اتنی بڑی شہرت کے ساتھ ساتھ مالدار ھوتے ھوئے بھی وہ کیا چیز ھے جو اسے بھی تخت جمہوریت میں کیوں برجمان ھونے پر مجبور کرتی ھے ۔
اس کا جواب محترم طلحہ محمود صاحب ہی بہتر دے سکتا ھے۔اور یہ سوال بھی پیدا ھوتا ھے۔اتنا بڑا چلتا پھرتا اؤنڈیشن کے مالک کو کیا اور چاھئے کہ وہ بھی ان لوگوں کے صف میں آکر کھڑے ھوجائیں جس صف میں سارے ملزمان کھڑے ھوں۔
میں اپنے استاد محترم ماہر سرجن پروفیسر صدیق احمد صاحب کے ساتھ محو گفتگو تھا۔تو باتوں باتوں میں اس نے مجھے کہا کہ ڈاکٹر محمد حکیم اس عنوان پر کالم لکھیں ۔کیونکہ یہ ایک زبردست تاریخی کالم ھوگا۔استاد کی تابعداری کرتے ھوئےمجھے یہ مضمون لکھنا پڑا۔
اب رہی کچھ باتیں “حسن انتخاب ” کی کہ حسن انتخاب کیا ھے؟
حسن انتخاب یہ ھے۔کہ یقینًا ازل سے چترالی اندرون اور بیرون ملک میں ایک باوفا اور با کردار قوم تصور کئے جاتے ھیں۔جس کا اعتراف محترم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے لیکر جنرل مشرف تک تمام حکمران حتٰی کہ عمران خان نے بھی کئی مرتبہ کیا ھے۔
چترالی قوم نے جنرل الیکشن میں تمام ازمودہ چہروں کو بھلادیا۔اور مہمان کا بھی خیال رکھا۔اور یہاں تک کہ 40 ہزار سے بھی بڑھ کر اسے ووٹ دیا۔لیکن قسمت میں ہار لکھی ھوئی تھی۔اور پہلی بار چترالی قوم ہر چیز سے بالاتر ھوکر عبدالطیف، مہتر چترال،ثریاء باجی،کو منتخب کرکے آپس میں اتحادو اتفاق کا وہ تاریخی منظر پیش کی۔کہ تاریخ کبھی بھی اسے نہ بھول سکے گی۔
چترال کے لئے خوشخبری کی بات یہ ھے۔کہ یقینًا دونوں ایم پی ایز اور ایم این اے ایک ہی پارٹی کے حمایت یافتہ ممبرز ھیں۔اسی لئے چترال میں ترقیاتی کاموں کی جھال بیچھانے میں کوئی چیز انکے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے گی۔
ھم دعاگو ھیں۔کہ پروردگار ھم سب کا حامی و مددگار ھوں۔
آمین