داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
حماس اور اسرائیل کی تازہ ترین جنگ نے ایک بار پھر ہماری غلط فہمی کا ازالہ کردیا ہے اب ہماری غلط فہمی دور ہوگئی ہے اور اس غلط فہمی کے ساتھ مزید کئیغلط فہمیاں دور ہو گئی ہیں ہم کو یہ غلط فہمی تھی کہ دنیا نے ترقی کرلی ہے یہ بھی غلط فہمی تھی کہ موجودہ دور جمہوریت کا دور ہے ہے یہ بھی غلط فہمی تھی کہ امریکہ جمہوری ملک ہے یہ بھی غلط فہمی تھی کہ سلامتی کونسل جنگ روکنے اور امن قائم کرنے والا ادارہ ہے یہ بھی غلط فہمی تھی کہ نوآباد تی نظام ختم ہو چکا ہے، یہ بھی غلط فہمی تھی کہ اسرائیل مشرق وسطی میں 91لا کھ کی آبادی والا چھوٹا ملک ہے، حماس اور اسرائیل کی تازہ ترین جنگ نے اس غلط فہمی کے ساتھ دیگر تمام غلط فہمیوں کو دور کر دیا
اب یہ بات روز روشن کی طرح کھل کر سامنے آگئی ہے کہ دنیا نے کوئی ترقی نہیں کی اکیسویں صدی میں بھی ہم چنگیز خان کے زمانے میں جی رہے ہیں چنگیز خان کا لشکر جا رہا تھا ایک عورت بکریاں چراتی ہوئی راستے میں آگئی گھبراہٹ میں اس کی گود سے دود پیتا بچہ زمین پر گرا چنگیز خان کا گھوڑا وہاں پہنچا عورت چیختی چلا تی ہوئی آئی چنگیز خان نے بچے کے سینے پر نیزے کو پیوست کر کے اٹھایا اور ماں کی طرف اچھال دیا یہ چنگیز خان کا طرز عمل تھا اسرائیل نے غزہ کے تین ہسپتالوں پر حملہ کرکے 1100معصوم بچوں اور بچیوں کو خون میں نہلا دیا امریکی صدر نے اسرائیل کو شاباش دی، یورپی یونین نے ہسپتال پر حملوں کی حمایت کی عرب ریاستوں نے اسرائیل کو ان حملوں میں حق بجانب قرار دیا روس، ترکی، برازیل، چین اور ایران نے اس پر رد عمل ظاہر کیا مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا
ہم اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ موجو دہ دور جمہوریت کا دورہےغزہ میں 6ہزار بے گناہ شہریوں کے قتل کے بعد برازیل اور سوڈان نے پے درپے سلا متی کونسل میں جنگ بندی کی قرار داد یں پیش کیں رائے شما ری ہوئی تو 15 میں سے 12ممبروں نے قرارداد کی حمایت کی دو ممبروں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا، ایک ممبر نے قرار داد کی مخالفت کی اور قرار داد مسترد ہوئی، 12ممبرہار گئے ایک ممبر جیت گیا 12ممبر وہ تھے جو غزہ میں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام بند کرنا چاہتے تھے ایک ممبر وہ تھا جو غزہ میں مسلما نوں کا مزید قتل عام چاہتا تھا ہم نے پوچھا یہ کیسی جمہوریت ہے کہ اکثریت ہار گئی اقلیت کو فتح نصیب ہوئی
ہمیں بتایا گیا اس کا نام ویٹو پاور ہے سلا متی کونسل بنا نے والوں نے یہ قانون بنا یا ہے اور اس قانون کے تحت امریکہ نے ویٹو کرکے مسلما نوں کا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے ہم نے کہا توکیا امریکہ جمہوری ملک نہیں ہے ہمیں بتایا گیا یہ تمہاری غلط فہمی تھی جو اب دور ہونی چاہئیے امریکہ جمہوریت کا سب سے بڑا مخالف ہے اس لئے سلامتی کونسل میں جمہوریت کا ذکر کرنا منع ہے وہاں جمہوریت کا نام کوئی نہیں لے سکتا ہم نے پوچھا کیا سلامتی کونسل جنگ روکنے والا ادارہ نہیں ہمیں بتایا گیا کہ ہرگز نہیں سلامتی کونسل جنگ بھڑکا نے والا ادارہ ہے اور جنگ کو ہوا دینا سلا متی کونسل کا پہلا مشن ہےاس کے قیام کا مقصد ہی فساد اور جنگ برپا کروانا ہے
ہم نے پوچھا 57اسلامی ممالک بشمول 23عرب ریاستیں غزہ کی مسلمان آبادی کا دفاع کیوں نہیں کرتیں ہمیں بتا یا گیا کہ 34غیرعرب ممالک اور 23عرب ریاستیں اسرائیل کی نوآبادیات میں شامل ہیں اسرائیل کی کا لونیاں ہیں 91لا کھ کی آبادی نے ڈیڑھ ارب مسلما نوں کو غلام بنا ہوا ہے ہم نے پوچھا کیا نو آبادیاتی نظام ختم نہیں ہوا ہمیں بتایا گیا نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا یہ بھی تمہاری غلط فہمی تھی جواب دور ہو چکی ہے اگر اب بھی دور نہیں ہوئی تو اس غلط فہمی کو دور ہونا چاہئیے، ہم نے آنکھیں ملتے ہوئے دیکھا تو غلط فہمی دور ہو چکی تھی اور یہ آخری غلط فہمی تھی ہم نے آخری غلط فہمی کہا تو انہوں نے کہا کہ آخری نہیں ابھی مزید غلط فہمیاں باقی ہیں
ہم نے پو چھا مثلاً کون سی غلط فہمی باقی ہے انہوں نے نہایت راز داری، نر می اور آہستگی سے جواب دیا مثلا ً یہ کہ امریکہ اسرائیل کی مدد کر رہا ہے ہم نے کہا یہ تو سچ ہے انہوں نے کہا نہیں یہ پورا سچ نہیں، پورا سچ یہ ہے کہ 23عرب ریاستوں کے دولت مند شیوخ اور 34دیگر اسلامی ملکوں کے تمام حکمران اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں امریکہ کے حصے میں صرف بدنامی آتی ہے اسرائیل کو طاقت عرب ریاستوں اور اسلا می ملکوں سے ملتی ہے ایک اور غلط فہمی دور ہو گئی۔
جو اسلامی ریاستیں اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں ان کا آقا امریکہ ہے۔ وہ اپنے آقا کے اشارے پر ناچتی ہیں۔