فلسفہِ حق و شر
(آفتاب علی خان موسیٰ)
مزاجِ سچ میں پنھاں ہے
وہ بات کچھ فرق کا یوں بھی
کہ یکسر کڑوی ہو پھر بھی
یہ شریں جانی جاتی ہے
سبھی ہم مان لیں کیا یہ
تضاد پوشیدہ ہے سچ میں
جو جیتے وہ تو ہاروں میں
جو میں ہاروں وہ جیتے ہے
غلط پھر جھوٹ ہو کیونکر
یہ ہے تو سچ بھی ممکن ہے
یہ بات تم مان لو ناصیح
یہ سب واسواسِ مطلب ہے
اُٹھانا سیکھ جائے شر
جو بوجھِ مصلیحت کا کھیل
سوال پھر میں یہ پوچھونگا
کہ سچ کو کون پوچھے ہے؟
کیا سچ کی یہ حقیقت ہے
کہ بس پروانہ مرتا ہے؟
یہ بات گر پوچھ لوں تم سے
کیا بتلا پاؤ گے مجھ کو؟
کیوں رقصِ شمع کی خاطر
پھر شب بھر موم جلتا ہے؟
شعور اك نقطہ کب سے ہے
یہ تو وہ بحرِ ازبر ہے؟
وہی جو ڈوبے ہے اس میں
!اُسی کو حق وہ مانے ہے
یہ سچ بھی ہے
بہت معصوم
!یہ اپنا کس کو جانے ہے۔۔