مردم شماری میں کھوار زبان کے ساتھ زیادتی
احتشام الرحمن
آٹھ لاکھ سے زائد لوگوں کی مادری زبان ہونے کے باوجود کھوار زبان کو اس بار بھی مردم شماری کی زبانوں کی فہرست میں الگ سے شمار نہیں کیا گیا. اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں. سیاسی, ادبی, سماجی, آپس کے اختلافات اور سب بڑھ کر ہماری اپنی نا اہلی. کھوار کو الگ سے شامل نہ کرنے اور'”دیگر’ میں اسے شمار کرنے کے بعد ایک دوسرے پر الزامات بھی لگائے جا رہے اور حکومت اور سیاسی نمائندوں سے گلے شکوے بھی کئے جا رہے ہیں.
اب ان سب کا کوئی فائدہ نہیں. اب وقت ہے اپنے آپ کے محاسبے کا. بحیثیت ایک طالب علم میں پچھلے آٹھ سالوں سے چترال میں منعقد مختلف پروگراموں میں حصہ لے رہا ہوں. اس دوران جہاں بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملا وہیں کئی باتیں ایسی دیکھی جو ان کے شایان شان نہیں.
چترال ادب و ثقافت کے لحاظ سے ایک زرخیز علاقہ ہے. یہاں پر اچھے شعراء بھی ہیں اور نامی گرامی ادیب بھی. گلی گلی میں ادبی تنظیمیں بھی ہیں لیکن ابھی تک سوائے چند ایک تصانیف جیسے کہ سر ناصر الملک کی الصحیفۃ التکوین (جس کی تعریف علامہ اقبال نے بھی کی), مولا نگاہ صاحب کے شرحِ کلامِ بابا سیئر (جسے دیکھ کر فتح محمد ملک صاحب بھی ششدر رہ گئے), امین الرحمن چغتائی صاحب (احمد فراز صاحب کے شاگرد) کی تھک ناتھکی اور عرفان صاحب کی چترال کے لوک گیت کے علاوہ کوئی با کمال تصنیف سامنے نہیں آئی ہے. کھوار کی ترویج کے حوالے سے تنظیمی سطح پر بھی مئیر تنظیم اور انفرادی لیول پر پروفیسر ممتاز حسین کے کاوشوں کے سوا کوئی قابلِ ستائش کام نہیں ہو رہا ہے. تاریخ کا بھی یہی حال ہے. اب تک کوئی تحقیقی کام نہیں ہوا ہے. یا تو فرنگیوں کی لکھی ہوئی تاریخ پر اکتفا کیا جاتا ہے یا اپنی مرضی کے مطابق ‘تاریخ لکھوائی جاتی’ ہے.
اسی طرح مختلف تنظیموں کی ترجیحات میں بھی مسلہ ہے. ان کی اکثریت کی ترجیح محفل مشاعرہ یا پھر ڈھول کی تھاپ پر ناچ گانے کی محفل منعقد کرانا ہوتی ہے. جو تنظیم کوئی ادبی محفل یا سیمینار منعقد کراتی بھی ہے تو اس کی ترجیح اس پروگرام کے لئے آئے ہوئے فنڈ سے کچھ دن کی عیاشی مقصود ہوتی ہے.
اس سے بھی بڑھ کر مسلہ ان تنظیموں کی آپس میں ‘سرد جنگ’ ہے. دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اگر ایک تنظیم کوئی پروگرام منعقد کراتی ہے تو دوسری تنظیم کے لوگ وہاں جانے سے کتراتے ہیں. آپس میں مل جل کر کام کرنا تو محال, تنظیمات کے اندر ہی ٹیم ورک کی کمی دکھائی دیتی ہے. حال ہی میں انجمن ترقی کھوار اور فورم فار لینگویج انیشیٹیو نے چوتھی بین الاقوامی ہندوکش کانفرنس کرائی لیکن اس میں دوسری تنظیموں نے حصہ نہیں لیے. اگر چہ یہ کانفرنس بہت کامیاب رہی لیکن اس میں بھی ٹیم ورک کی شدید کمی محسوس کی گئی.
یہ دور بیسویں صدی سے مختلف دور ہے. اس دور کا دس سالہ بچہ وہ کچھ بھانب لیتا ہے جو 1990 کی دہائی میں پیدا ہونے والوں کو پتہ بھی نہیں ہوتا. ہماری تنظیمات میں نئے اور نوجوان لوگوں کو شامل کر کے, بڑوں کو ان کی سرپرستی کر کے, ان سے کام لینے کی ضرورت ہے. سوات میں بولی جانے والی توروالی زبان مردم شماری کی زبانوں کی فہرست میں شامل ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ زبیر توروالی صاحب نے ایک زبردست ٹیم تیار کی ہے جس کا اندازہ مجھے ہندو کش کانفرنس میں ان سے مل کر ہوا. بدقسمتی سے ہمارے بڑوں, جو کہ انتہائی قابل بھی ہیں اور اہل دانش بھی, نے ایسی ٹیم تیار نہیں کی ہے اور ابھی تک ‘ڈرائیونگ سیٹ’ پر خود ہی بیٹھے ہوئے ہیں.
ادبی کام کی بات آتی ہے تو اس میں بھی مبالغہ آرائی کی جاتی ہے. کوئی پشاور کے قصہ خوانی میں جا کر کتاب چھپوا کر خود کو ‘صاحب کتاب’ سمجھنے لگتا ہے. اس میں نہ تحقیق ہوتی ہے نہ ہی محنت. اس کتاب کی رونمائی بھی ہوتی ہے اور اس پروگرام میں سب اس کی مدح سرائی میں آسمان زمین ایک کر کے, سموسے اور چائے پی کر اگلے ہی دن اسے بھول جاتے ہیں.
ایک صاحب جس نے کئی کتابیں لکھی ہیں اور کئی کتابوں کے مترجم بھی ہیں, ان سے میں نے عرض کی کہ آپ کیوں کسی اچھے نامی گرامی پبلشر سے اپنی کتابیں نہیں چھاپتے؟ انہوں نے کہا کہ “اس میں وقت ضائع ہوتا ہے کیونکہ وہ کیڑے نکالتے ہیں اور میں انتظار نہیں کر سکتا.” اس کے برعکس امریکی ماہر لسانیات الئینا بشیر صاحبہ کئی سالوں کی محنت, مشقت اور تحقیق کے بعد کھوار کے لفظوں کی ایک ڈکشنری تیار کی ہے. مکمل کرنے کے بعد اس کی کئی کاپیاں چترالی ماہرین لسانیات کو دی کہ وہ غلطیاں نکال کر تصحیح کر کے انہیں دے دیں تاکہ وہ اسے چھاپ سکیں. ان کی اعلی ظرفی دیکھیں کہ اس ضخیم ذخیرہ الفاظ کے مجمع پر مشتمل اس کتاب کو انہوں نے glossary کا نام دیا ہے.
مختصرا یہ کہ اب لڑنے جھگڑنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے کے بجائے آگے کے لئے لائحہ عمل تیار کرنے اور آپس کی رنجشوں کو بھلا کر نئے ولولے کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے. جہاں تک ایسے معاملات میں سیاسی لوگوں پر اکتفا کرنے کی بات ہے تو ہمارے ایک بزرگ کہا کرتے تھے کہ “کبھی بھی کسی سیاست دان, وکیل, ڈرائیور اور ٹھیکہ دار پر اعتبار نہ کرنا.” چترالی سیاستدانوں سے کچھ مثبت کرنے کی توقع رکھنا سب سے بڑی حماقت ہو گی. وہ تو قومی زبان میں بھی دس منٹ ڈھنگ سے بات نہیں کر پاتے ہیں, تو وہ بیچارے مادری زباں کے لئے کیا ہی کر سکیں گے.