Chitral Today
Latest Updates and Breaking News. Editor: Zar Alam Khan.

چترال اب بھی کورونا ٹیسٹ کی سھولت سے محروم

گل حماد فاروقی 

جب میرے والد صاحب بیمار ہوئے تو انھیں ہم چترال کے ڈسٹرکٹ ھیڈ کوارٹر ہسپتال لے گئے جہان ان کا ٹیسٹ کرایا گیا اور جب رزلٹ آیا تو پتہ چلا  کہ میرے والد کو کرونا ہوا ہے۔ یہ خبر ہمارے لئے قیامت سے کم نہیں تھی۔ میرے والد سماجی کارکن تھے اور عمر بھر دوسروں کی خدمت کرتے رہے مگر جب ان پر برا وقت آگیا تو ان کا خدمت نہ ہوسکا۔ انھیں چترال ہسپتال میں داخل کیا گیا مگر وھاں پر ونٹی لیٹر خراب تھا اور انھیں مجبوراً خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور لے گئے۔ وہاں میرا ایک رشتہ دار ڈاکٹر بھی تھا  مگر اس کے باوجود ہم پر جو بیتی وہ خدا کسی کو بھی نہ دکھائے۔

میرےوالد تین دن آی سولیشن میں پڑا رھا اس کے بعد ان کا انتقال ہوا۔ ایک عام میت اور کرونا وائرس سے مرنے والے میت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس کے پاس اکثر ان کے لواحقین بھی نہیں چھوڑتے اور لوگ بھی اس کے جنازے میں شرکت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ہم نے والد کی میت  کو لیکر چترال روانہ ہوئے مگر ہمیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ان خیالات کا اظہار بشیر احمد مرحوم کے بیٹے سعود بشیر نے کی جو اپنے والد بشیر احمد کے بارے میں بتارہے تھے جو کرونا وائرس کی وجہ سے پشاور میں انتقال کرگئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جب کوئی مریض پشاور ریفر کیا جاتا ہے  تو پشاور کے ہسپتالوں میں ان کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مریض کی علاج کی ادویات خریدنےان کے علاج کے علاؤہ ان کے ساتھ جو اٹینڈنٹ ہوتے ہیں ان کو بھی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر چترال کے ہسپتال میں تمام سہولیات فراہم کی جائے تو مریضوں کو پشاور ریفر کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اگرچہ چترال کا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کوئی دس سال پہلے کیٹیگیری بی میں اپ گریڈ ہوا تھا مگر ابھی تک اس میں ایک اضافی کمرہ تک نہیں بنایا گیا۔ 

ڈاکٹر نثار احمد جو ڈپٹی ڈی ایچ او  ہے، ان کو بھی کرونا ہوگیا تھا جو پشاور کے ایک سرکاری ہسپتال میں زیر علاج رھے، سے جب فون پر بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ دس دن تک  تو وہ ونٹی لیٹر پر موت و حیات کے کشمکش میں مبتلا رھے۔ انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے چترال کے واحد ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں چار ونٹی لیٹرز ہیں مگر وہ فعال نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ سیریس مریضوں کو پشاور مجبورا ریفر کرنا پڑتا ہے۔  کرونا وائرس کے دوسرے لہر نے ایک بار پھر لوگوں کو پریشان کرنا شروع کیا ہے اس سلسلے میں چند ایسے مریضوں یا کرونا سے مرنے والے افراد کے لواحقین سے مل کر ان کی پریشانی جاننے کی کو شش کی گئی تاکہ ان مسائل کا کوئی ممکنہ حل نکالا جاسکے۔  

  کرونا وائرس کے دوسرے لہر نے جہاں دنیا بھر کو پریشاں کیا ہے وہاں پاکستان میں بھی تیزی سے اس وباء  سے متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔  چترال جیسے  دور آفتادہ اور پسماندہ ضلعوں میں اس وباء نے سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ساتھ عوام کی پریشانی میں بھی اضافہ کیا ہے۔ چترال دو اضلاع میں تقسیم ہوا ہے ضلع اپر چترال اور لوئیر چترال مگر دونوں اضلاع میں ڈاکٹروں کی شدید قلعت ہے۔  

اسی طرح چترال کے کسی بھی ہسپتال میں کرونا ٹیسٹ کیلئے کوئی لیبارٹری موجود نہیں ہے۔ یہاں کرونا ٹیسٹ کیلئے مشکوک مریض سے نمونے لیکر گاڑی کے ذریعے خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور لے جایا جاتا ہے جس میں دو دن لگتے ہیں اور اگر راستے میں گاڑی خراب ہو تو زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔

لوئیر چترال میں  کرونا کے کو آرڈینیٹر ڈاکٹر تاثیر جمال کے مطابق  یہاں مقامی طور پر ٹیسٹ کیلئے لیبارٹری نہ ہونے کی وجہ سے یہ وباء پھیلنے کا بھی خدشہ ہے کیونکہ ہم اپنے طور پر مشکوک مریض کو  تو سمجھاتے ہیں کہ وہ تنہائی احتیار کرے مگر ٹیسٹ کے بغیر اکثر ایسے مریض لوگوں میں گھل مل جاتا ہے۔ اور ان سے دوسرے لوگوں کو بھی کرونا لگ سکتا ہے۔ 

ڈاکٹر تاثیر کے مطابق ان کے پاس گاڑی کیلئے تیل اور دیگر سہولیات کی بھی کمی ہے۔ ان کے مطابق چترال میں روزانہ دو سو سے لیکر دو سو تیس تک  ٹیسٹ کیلئے نمونے اکھٹے کئے جاتے ہیں اور ان نمونوں کو ٹیسٹ کیلئے پشاور لے جایا تا ہے۔ 

اب ان نمونوں کو پشاور لے جانے میں بارہ گھنٹے لگتے ہیں رات دیر تک گاڑی پہنچ جاتی ہے جسے اگلے روز  خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں جمع کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق اگر چترال میں مقامی طور پر لیبارٹری کا بندوبست کیا جائے تو بہت اچھا ہوگا۔

ڈاکٹر تاثیر کے مطابق  پرسنل پروٹیکٹیو ایکویپمنٹ کی کمی تو نہیں ہے البتہ یونیورسل ٹرانسپورٹ میڈیا میں کچھ مسائل ضرور ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ لوئیر چترال میں صرف  ڈسٹرکٹ ہیڈ  کوارٹرز ہسپتال میں چار عدد وینٹی لیٹرز ہیں جو کام نہیں کررہے ہیں۔

ڈایگنوس لیبارٹری نہ ہونے سے اس کی ٹیسٹ پر بہت  وقت لگتا ہے اور جب تک مریض کا رزلٹ آتا ہے تب تک وہ اپنا کرچکا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر چترال میں  مقامی طور پر لیبارٹری کا بندوبست کیا جائے تو یہ بہت اچھا ہوگا کیونکہ ہم جن مریضوں کا ٹیسٹ کرتے ہیں تو وہ آیسولیشن میں نہیں جاتا ہے ان کا اکثر یہی کہنا ہوتا ہے کہ میرا ٹیسٹ ابھی تک نہیں آیا ہے اور اس طرح اس سے دیگر لوگوں کو بھی یہ وائرس پھیل سکتا ہے۔  

انہوں نے کہا کہ کرونا کو کنٹرول کرنے کیلئے ٹریس، ٹیسٹ اور قرنطینہ ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت لوئیر چترال میں 65  ایکٹیو کیس ہیں   لوئیر چترال میں کل پازیٹیو کیس 859 ہیں اور ہم نے 10800  مشکوک لوگوں کا ٹیسٹ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک آٹھ افراد کرونا کی وجہ سے جاں بحق ہوچکے ہیں۔  

ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر لوئیر چترال ڈاکٹر شہزادہ حیدر الملک کے مطابق  لوئیر چترال میں ایک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال، ایک تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال (گرم چشمہ) دو کیٹیگری ڈی ہسپتال بونی  اور دروش میں  6 دیہی  مرکز صحت اسی طرح راکز صحت  اور 32 سول ڈسپنسریاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال  گرم چشمہ آغاخان  ہیلتھ سروس کے حوالہ ہوا ہے مگر وہاں بھی ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ اسی  طرح آر ایچ سی آیون میں ایک خاتون ڈاکٹر کی آسامی کی حالی پڑی ہے۔  

انہوں نے کہا کہ بی ایچ یو بمبوریت میں ڈاکٹر کی آسامی حالی ہے جس سے وہاں کے لوگوں کے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔  اسی طرح کیٹیگری  ڈی ہسپتال دروش میں لیڈی ڈاکٹر نہیں ہے۔  

ڈاکٹر سلیم سیف اللہ جو لیڈی ہیلتھ ورکرز کے نیشنل پروگرام کے کو آرڈینیٹر ہے ان کے مطابق چترال میں کے 105 آسامیاں حالی ہیں جس کیلئے ہم نے ڈایریکٹر جنرل صحت سے درخواستیں منگوانے کیلئے لکھا ہے اور جب یہ حالی آسامیاں پر جائے تو اس سے بھی صحت کے حوالے سے کافی فرق پڑے گا۔  

اس سلسلے میں جب ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال  میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شمیم سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ دونوں اضلاع کا یہ واحد ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال ہیں جو 200 بیڈ پر مشتمل ہے۔  یہاں ڈاکٹروں کی کل منظور شدہ آسامیاں 106 ہیں جن میں پچھلے دس سالوں سے 57  آسامیاں حالی پڑی  ہیں۔ ان میں 21 سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی حالی آسامیاں بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر مریضوں کو مجبورا پشاور ریفر کیا جاتا ہے کیونکہ  یہاں  کارڈیالوجسٹ،  نیورو سرجن،  آرتھوپیڈک سرجن، نیفرالوجسٹ،  نیورالوجسٹ وغیرہ کی سہولیات موجود نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہم زیادہ تر مریضوں کو پشاور وغیرہ ریفر کرتے ہیں۔  

You might also like

Leave a Reply

error: Content is protected!!