انصافی حکومت کے ساتھ ہمارے توقعات اور دفتروں میں ہماری تزلیل
سید اولاد الدین شاہ
پاکستان میں ہر بندے کی خواہش ہوتی ہے، تعلیم مکمل کرنے کے بعد اچھی نوکری ہو۔ اگر اچھا قابل انسان ہو، سول سروس، فوج میں کمیشن لے لیتے ہیں اور کچھ قابل لوگ میڈیکل، انجنئیرنگ اور ایجو کیشن کے شعبے کی طرف آتے ہیں۔ ہم جیسے درمیانہ درجے کے طالب علموں کی آرزو ہوتی ہے کہ سرکاری نوکری ہو، ایک بار نوکری لگ جائے پھر زندگی بھر مزے ہی مزے۔ نوکری چاہے فوج میں ہو، بینک میں ہو، پوسٹ آفس میں ہو، نادرا میں ہو یا پاسپورٹ آفس میں ہو۔
پاکستان کے سرکاری دفتروں میں بغیر رشوت کے جائز کام نکالنے کے لئے اوپر بیٹھے عہداداروں سے اچھے تعلقات کا ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی ڈائریکٹر لیول کے بندے سے آپ کی سلام دُعا ہو، آپ کا کام اسانی سے ہو سکتا ہے۔ اگر نہیں قائد اعظم کام آ سکتا ہے۔ کیونکہ سرکاری آدمی ہے قائداعظم کی ضرور عزت کرے گا۔ اب آتے ہیں اصل مدعے کی جانب۔
۲۰۱۶ کے وسط میں چترال کے پاسپورٹ اور نادرا آفس جانے کا اتفاق ہوا۔ نادرا میں فارم ب اور سی این آئی سی اور پاسپورٹ آفس میں پاسپورٹ کی تجدید اور نیا پاسپورٹ بھی بنانا تھا۔ نادرا کا سسٹم دیکھ کر اچھا لگا۔
نادرا کے عملے کا انداز پیشہ ورانہ تھا۔ لیکن پاسپورٹ آآفس میں گاڑیوں کے آڈے کا ماحول تھا۔ پاسپورٹ آفس میں نہ کوئی کیش کاؤنٹر ہے اور نہ ہی کوئی بینک کا شاخ۔ پیسے کیش کی صورت میں باہر بیٹھے بندے کے پاس جمع کرنا پڑتا ہے۔ اگر پاسپورٹ کا گورنمنٹ فیس ۵۰۰۰ ہے ۵۵۰۰ روپے جمع کر لو۔ ۵۰۰ روپیہ پاسپورٹ آفس کے ملازم کا جیپ خرچ، جو بینک میں میرے لئے پیسے جمع کرے گا۔ خیر ویسے سنٹرل چترال میں ایک ہفتہ رہ چکا تھا۔ اس طرح گورنمنٹ فیس کے علاوہ ۵۰۰ روپے رشوت کی صورت میں ادا کرکے میرا کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔
اس کے بعد میرے ایک عزیز بھی پاسپورٹ کی تجدید کے سلسلے میں پاسپورٹ آفس گیا اور تلخ تجربات کا سامنا کیا۔ بندہ تھوڑا ہوشیار ہے، پاسپورٹ فیس جمع کرکے بمعہ رسید دفتر میں گیا۔ لیکن یہاں لینے کے دینے پڑھ گئے۔ کام کرنے کے بجائے اُلٹا تنگ کیا گیا۔ آخر میں رشوت کے طور پر ۱۰۰۰ روپے وصول کئے گئے۔ اب بھی میں نے اس سلسلے میں کچھ لوگوں سے بات کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ کلچر ابھی تک چلا آ رہا ہے۔ ہم لوگ تو عمران خان صاحب سے آس لگائے بیٹھے تھے۔ عمران آئے گا۔ ملک میں انصاف کا بول بالا ہوگا۔ رشوت ستانی، اقربا پروری کا خاتمہ ہوگا۔ پتہ نہیں کب ہوگا۔ اس لئے میرے جیسے عام آدمی کے ذہن میں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
۱- کیا پاسپورٹ آفس میں ملازمیں کو تنخواہ نہیں ملتی؟
۲۔اگر تنخواہ ملتی ہے یہ لوگ عوام کو ذلیل کیوں کرتے ہیں؟
۳۔ اگر یہ رشوت کلچر سالوں چلا آرہا ہے۔ کیا دوسرے ادارے سوئے ہوئے ہیں؟ قانونی کاروائی کیوں نہیں کرتے؟
۴۔ چلو مان لیا، یہ لوگ عوام کو سہولت مہیا کرتے ہیں۔کیا پاسپورٹ آفس سے بینک کا کرایہ ۵۰۰ روپیہ بنتا ہے؟ اگر بیس پاسپورٹ دن میں بن گئے تو پھر دس ہزار روپے بنتے ہیں۔ کیا یہ عوام کو لوٹنا نہیں؟
۵- یہ لوگ پہلے سے جمع شدہ رسید کیوں قبول نہیں کرتے؟
۶۔ کیا انصافی حکومت میں ہمیں انصاف ملے گا؟
۷۔ کیا پاسپورٹ آفس میں بینک کا برانچ کا کیش کاؤنٹر نہیں کھل سکتا؟