چترال پولیس کی حراست سے سمگلر کو کس نے بھگایا؟
زکریا ایوبی
چترال کو افغانستان کے صوبہ نورستان سے ملانے والی شاہ سلیم روڈ پر گرم چشمہ سے چند کلومیٹر آگے پرابیگ گاؤں واقع ہے جہاں آبادی کے بیچوں بیچ پولیس چوکی قائم ہے۔ سرحدی علاقہ اور سمگلروں کی آمدو رفت کا واحد راستہ ہونے کے سبب یہ چوکی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔پرابیگ چوکی آج کل ایک افغان اسمگلر کی گرفتاری اور پھر فرار کے حوالے سے چترال میں مقامی سطح پر خبروں میں ہے، جبکہ چند ماہ پہلے بھی ایک مقامی شخص پر مبینہ طور پر جعلی مقدمہ دائر کرنے اور اسے بلا وجہ تشدد کا نشانہ بنانے کے الزامات کو بنیاد بنا کرسوشل میڈیا پر پرابیگ چوکی اور وہاں کے اے ایس آئی سے متعلق کافی کچھ لکھا اور کہا جا چکاہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق خفیہ اطلاع پر پولیس کی جانب سے گبو رکے مقام پر افغانستان سے آنے والے سمگلروں کو پکڑنے کے لیے ناکہ بندی کی گئی اور تلاشی کے دوران ایک سمگلر کو چھ کلو گرام منشیات کے ساتھ حراست میں لیا گیا جسے بعد ازاں عدالت میں پیش کرکے چالان کاٹا گیا اور گرم چشمہ پولیس نے ملزم کو واپس اپنے ساتھ تھانہ گرم چشمہ لے گئی۔اصل کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ ہواکچھ یوں کہ ملزم کو واش روم جانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو مستعد پولیس اہلکاروں نے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے غیر ملکی اسمگلر کو لاک اپ میں موجود واش روم میں بھیجنے کے بجائے اسٹاف کے لیے مختص واش روم میں بھیج دیا اور پھر پورا تھانہ ستو پی کر سوگیا۔ پولیس کا موقف ہے کہ ملزم واش روم کا روشندان توڑ کر فرار ہوگیا اور تھانے میں موجود درجنوں اہلکاروں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ جب تک پولیس کو ملزم کا خیال آیا وہ نو دو گیارہ ہوچکا تھا۔ یہ واقعہ عید سے پہلے وقوع پزیر ہوا ، درمیان میں عید کی چھٹیاں آگئیں اور پولیس کے چوق و چوبند اہلکار عید کی چھٹیوں کے بعد اب گاؤں گاؤں ملزم کو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔چترال کے بچے بچے کو پتہ ہے کس گاؤں میں کون چرس کا کاروبار کرتا ہے لیکن پولیس بے گناہ شہریوں کےگھروں پر چھاپے مار کر خانہ پری کرنے میں مصروف ہے۔ پولیس اگر سچ مچ منشیات فروشوں کو پکڑنے میں مخلص ہے تو ہر گاؤں میں موجود ان منشیات فروشوں کو پکڑ لے جو بچوں کے خون میں زہر گھولنے میں مصروف ہیں۔
واقعہ ابھی منطقی انجام کو نہیں پہنچاتھا کہ گزشتہ روز سوشل میڈیا پر پرابیگ پولیس چوکی کے اسی اے ایس آئی کو ہیرو بنا کر پیش کرنےکا سلسلہ شروع ہوا جنہوں نے مذکورہ سمگلر کو گرفتار کیا تھا۔ استفسار پر صاحب تحریر نے دعویٰ کیا کہ متعلقہ اے ایس آئی نے غیر ملکی اسمگلر کے فرار کے بعد ایک اور کارہائے نمایاں سر انجام دیتے ہوئے ایک بار پھر غیر ملکی منشیات فروش کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ دعویٰ سن کر میرا ماتھا ٹھنکا تو میں نے وہ تصویر پرابیگ کے مقامی اور با خبر شخص کو بھیج کر تصدیق کرنا چاہی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ وہی سمگلر ہے جو پولیس کی حراست سے فرار ہوا ہے اور یہ تصویر بھی پرابیگ پولیس چوکی میں اس وقت کھینچی گئی تھی جب یہ ملزم پولیس کی حراست میں تھا۔ اب متعلقہ پولیس حکام خود کو بری الذمہ قرار دینے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لے رھے ھیں اور جھوٹ بول کر پرانی تصاویر کو نیا واقعہ بتا کر پروپیگنڈا کر رہے ہیں تاکہ اپنی مجرمانہ غفلت کی پردہ پوشی کر سکیں۔ جب ایسی حرکتیں ہوتی ہیں تو ہمارا شک یقین میں بدل جاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح اسمگلر کے فرار ہونے میں پولیس شریک جرم ضرور ہے۔
اس حوالے سے پرابیگ سے ہی تعلق رکھنے والی ایک اہم سیاسی شخصیت سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ یہاں اسمگلر کا فرار ہونا ہی مشکوک نہیں بلکہ افغانستان سے آنے والے چار اسمگلروں سے صرف چھ کلو منشیات برآمد ہونا بھی مشکوک ہے۔ اگرچہ پولیس کے موقف کے مطابق چار میں سے تین ملزمان جائے وقوعہ سے بھاگ گئے تھے لیکن منشیات قبضے میں لیے گئے تو کیا سینکڑوں کلومیٹر دور دوسرے ملک سے کئی دنوں کا سفر طے کرکے چار اسمگلر صرف چھ کلومیٹر منشیات لے کر آرہے تھے؟ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ پولیس نے صرف چھ کلو منشیات ہی قبضے میں لی تھی تو پیشگی اطلاع اور پیشگی ناکہ بندی کے باوجود چار میں سے تین اسمگلر پولیس کو چکمہ دے کر کیسے فرار ہوئے وہ بھی منشیات کے بوجھ تلے دبے ہونے کے باوجود، جبکہ پولیس اہلکار ہتھیار بند اور چوق و چوبند تھے۔
اس حوالے سے ڈی پی او چترال کے دفتر کا موقف لینے کی کوشش کی تو ڈی پی او آفس نے اس واقعے کی تصدیق تو کر دی لیکن مزید تفصیل بتانے سے گریز کیا گیا۔
ڈی پی او چترال اور ڈپٹی کمشنر چترال کو چاہیے کہ وہ خود اس مسئلے میں ذاتی دلچسپی لے کر ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائیں یا پھر اس سنگین غفلت کے ذمہ داروں کا تعین کریں ورنہ چترال کو منشیات سے پاک کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔