چاہ بہار اور ہم
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
یہ کوئی انکشاف نہیں، بڑی خبر بھی نہیں بلکہ سالہا سال کی سفارتی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار نے کراچی، پورٹ قاسم اور گوادر کی بندرگاہوں کے متبادل کے طورپر افغانستان کو بیرونی دنیا سے تجارت کا کھلا،آسان اور ارزان راستہ دیدیا ہے اور ہم اس دنیا میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں جب افغانستان کو واحد راستہ پاکستان کی بندرگاہیں فراہم کرتی تھیں جب سویت یونین کو گرم پانیوں تک جانے کے لئے پاکستانی بندرگاہوں کی ضرورت پڑتی تھی
گذشتہ ماہ پاکستان نے افغانستان کو مال لیجانے کنٹینروں کو کراچی کی بندرگاہ پرروک دیا تو ملک بھر سے’’زندہ باد‘‘ کی صدائیں آنے لگیں۔ نعرہ بازوں کو اس بات کا پتہ نہیں تھا کہ کنٹینروں کو روک کر پاکستان نے کتنا بڑا نقصان کیاہےکنٹینروں کا قافلہ روکنے یا انہیں واپس کرنے کی کوشش میں مدہوش حکام کو پتہ نہیں کہ وہ ملک کا کتنا نقصان کررہے ہیں ان کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اب افغان حکومت کا واحد دارومدار پاکستانی راستوں اور بندرگاہوں پر نہیں رہا۔ 40سال پہلے1980 میں ایران نے کراچی اور پورٹ قاسم کی بندرگاہوں کے مقابلے میں سیستان اور بلوچستان کے سنگم پر جنوب مشرقی سمندری بندرگاہ چاہ بہار کی تعمیر کاکام شروع کیا تھا
ایران عراق جنگ کے دوران 1983 میں بندرگاہ تیار ہوگئی اور اس کو اسلحہ لانے کے لئے بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا،امریکہ، چین اور بھارت کے ساتھ ساتھ سویت یونین نے بھی بندرگاہ کی تعمیر کوایران میں انقلابی حکومت کا بڑا کارنامہ قرار دیا۔ رفتہ رفتہ چاہ بہار کی بندرگاہ میں بھارت کی دلچسپی بڑھ گئی۔ 2003ء میں بھارت، ایران اور افغانستان میں نارتھ ساوتھ ٹرانزٹ کوریڈور فریم ورک کے نام سے تین ملکی معایدے پر دستخط ہوئے۔
پہلا مرحلہ ایران نے خود انجام دیا۔ دوسرے مرحلے میں چاہ بہار کو افغانستان سے ملانے کےلئے سڑکوں کی تعمیر پر بھارت نے5ارب ڈالر خرچ کرنے کامعاہدہ کیا۔ خلیج اومان میں واقع یہ بندرگاہ ہمارے گوادر سے70کلومیٹر سمندری فاصلے پر واقع ہے2009 میں بھارت نے چاہ بہار سے کابل اور مزار شریف کےلئے 136ملین ڈالر مالیت کی سڑکیں تعمیر کیں۔ بھارت900کلومیٹرریلوے ٹریک بامیان تک تعمیر کرنے کے منصوبے پر بھی کام کررہا ہے۔ حال ہی میں بھارت نے بامیان میں حاجی گیک نامی معدنیات سے خام لوہا نکالنے کا بڑا ٹھیکہ بھی حاصل کرلیا ہے نومبر2017ء میں بھارت سے گندم کی پہلی کھیپ چاہ بہار کے راستے افغانستان پہنچی جس میں 7لاکھ میٹرک ٹن گندم کی مقدار لائی گئی۔
اس اثنا ء میں ایک محتاط انداز ے کے مطابق طورخم کے راستے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کا حجم دوارب 50کروڑ امریکی ڈالر سے کم ہوکر صرف50کروڑ امریکی ڈالر تک محدود ہوگیا اس وقت سرحمد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری بھی سراپا احتجاج ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری بھی تشویش میں مبتلا ہے کہ ہم کہاں جارہے ہیں ۔ افغانستان سے سالانہ ہزاروں ٹن حجم کے برآمدات پاکستان کے راستے بیرون ملک جاتے تھے وہ روک دئیے گئے ہیں 2019 میں افغانستان سے600میٹرک ٹن مال کی پہلی برآمدی کھیپ چاہ بہارکے راستے بھارت روانہ کردی گئی تب بھی ہماری آنکھ نہیں کھلی۔
یہاں ایک آنکھ کا ذکر بے محل نہیں دوسری آنکھ سے ہم نے کبھی نہیں دیکھا ۔ گویا ہم سدا کے کانے ٹھہرے سرِدست افغانستان سے ایک ارب ڈالر کے برآمدت بھارت بھیجے جارہے ہیں۔ افغان حکام کو اُمید ہے کہ 2021تک برآمدات کی قیمت 2ارب ڈالر تک پہنچ جائیگی۔ ماضی قریب اور حال کی ایک جھلک یہ تھی۔ مستقبل میں بڑا منصوبہ یہ ہے کہ افغان حکومت نے بھارت، ایران اور چین کے اشتراک سے وسطی ایشیا تک اپنی تجارتی راہداری کو توسیع دینے کا منصوبہ بنایا ہے۔ منصوبے کے تحت ایران کے اسلام قلعہ اور زیرانگ کو چاہ بہاربندرگاہ سے ملایا جائے گا۔ ازبکستان کی ہیراتان نامی سرحد تک سڑک بنائی جائیگی تاجکستان کی علی خانم اور شیر خان سرحدوں کو چاہ بہار سے ملایا جائے گا جبکہ ترکمنستان کی طورغونڈی سرحد تک سڑک تعمیر کی جائیگی۔
سڑکوں کا یہ وسیع جال افغانستان میں تعمیر وترقی اور معاشی سرگرمیوں کے نمایاں مواقع فراہم کرے گا جو یقینا افغان حکومت اور افغان عوام کے وسیع ترقومی مفاد میں ہوگی۔ اس منظرنامے کے اندر پاکستان کے پاس بھی ایک نادر موقع تھا عوامی جمہوریہ چین کی حکومت ون بیلٹ ون روڈ کے تحت چین پاک معاشی راہداری سی پیک کے فریم ورک میں پامیر ہائی وے کے نام سے پاکستان ،افغانستان اور تاجکستان کو ملانے کے منصوبے میں دلچسپی رکھتی تھی۔ یہ کام اب کھٹائی میں پڑچکا ہے ہم نے ایران پاکستان گیس پاءپ لائن کا منصوبہ گنوادیا 2012 میں اس کی آخری بازگشت سننے میں آئی تھی پھر خاموشی چھاگئی۔
ہم نے تاجکستان پاکستان بجلی کی ٹرانسمیشن کا منصوبہ گنوادیا، ہم نے تاجکستان، افغانستان، پاکستان گیس پاءپ لائن کا منصوبہ بھی گنوادیا اس کانام ٹاپی رکھا گیا تھا اور اس کو بھارت تک توسیع دی جانے والی تھی۔ اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2010کے ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے تحت مال کی ترسیل پرعمل ہورہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان نے گوادر،پورٹ قاسم اور کراچی کی بندرگاہوں کے علاوہ ہوائی اڈوں اور خشکی کے راستوں سے بھی افغانستان کو مال کی فراہمی کے لئے راہداری دینے کا پابند ہے مگر شرط یہ ہے کہ صرف افغانستان اور پاکستان کی گاڑیاں مال لے جائینگی۔ کسی تیسرے ملک کی گاڑیوں کو پاکستان سے گذرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ بھارت سے آنے والی گاڑیوں کو واہگہ کی سرحد پر خالی کرکے واپس بھیجا جائے گا۔
چنانچہ چاہ بہار کی نئی ایرانی بندرگاہ کے سامنے ہم ہرلحاظ سے بے بس ہیں۔ ایک طرف امریکی پابندیوں کا پہاڑ ہے دوسری طرف افغانستان ،ایران اور بھارت کا مضبوط گٹھ جوڑ ہے،تیسری طرف پاکستان کے اندر قومی سلامتی کے مسائل ہیں۔ ہم اس بھنور سے صرف ایک صورت میں نکل سکتے ہیں ۔ صورت یہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کو قومی مفادات اور خطے کی زمینی حقیقتوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ یہ ایک جملہ دریا کوکوزے میں لاتا ہے۔
Our foreign policy has become hostage to security policy which is disastrous for us. Until and unless our foreign policy is detached from security policy the situation will further aggravate. We have made all our neighbors our enemy due to myopic security policy without considering its repercussion on economy and foreign relation. In south Asia we are totally isolated nation and non of our neighbor trust us as friend. There is need of revamping our foreign policy and its objectives must be set by civilians. Chief Executive of the country should be PM and he must have executive power to run the country and to set its foreign policy long and short term objectives, otherwise we are moving towards disastrous destination.