Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

بلدیاتی نظام کا خاتمہ ـ 60 ارب روپے کی بچت کا موقع 

خیرالدین شادانی 

خیبر پختونخوا کے بلدیاتی نظام کا مالیاتی تجزیہ یہ واضح کرتا ہے کہ اس نظام کو ختم کرنے یا اس میں بنیادی اصلاحات کرنے سے صوبائی حکومت کو نمایاں مالی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں یہ نظام مقامی سطح پر جمہوریت کی علامت اور تحریک انصاف کی حکومتی پالیسی کا مرکزی ستون سمجھا جاتا تھا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی افادیت کم ہوتی گئی اور اب یہ نظام حکومتی کارکردگی اور مالیاتی نظم و ضبط کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے۔

صوبے بھر میں کل 38 اضلاع میں تقریباً 100 تحصیل کونسلز، 2,996 ویلج کونسلز اور 505 نیبرہوڈ کونسلز قائم کی گئی ہیں، جو مجموعی طور پر 3,501 مقامی حکومتوں پر مشتمل ایک وسیع مگر پیچیدہ انتظامی ڈھانچہ بناتی ہیں۔ اس وسیع نظام کو فعال رکھنے کے لیے خطیر وسائل درکار ہوتے ہیں جن میں سے بیشتر تنخواہوں، کرایوں، دفاتر کے خرچ اور معمول کی انتظامی سرگرمیوں میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام اخراجات صوبائی بجٹ پر ایک بھاری بوجھ بن چکے ہیں۔

سال 2020-21 کے دوران خیبر پختونخوا میں بلدیاتی اداروں کے لیے تقریباً 50 ارب روپے ترقیاتی بجٹ میں مختص کیے گئے۔ اس کے علاوہ نمائندوں اور عملے کی تنخواہوں، دفاتر کے کرایوں اور دیگر غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں مزید 10 ارب روپے خرچ کیے گئے۔ یوں صرف ایک سال میں 60 ارب روپے بلدیاتی نظام پر خرچ ہوئے، جس کا زیادہ تر حصہ انتظامی اخراجات کی نذر ہوا اور عملی طور پر عوام کو اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچا۔

اسی عرصے میں مختلف ذرائع سے مالی بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں کی متعدد رپورٹس سامنے آئیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ برائے مالی سال 2022-23 کے مطابق خیبر پختونخوا میں مجموعی طور پر 36 ارب روپے کی مالی بے ضابطگیاں ریکارڈ کی گئیں، جن میں متعدد کیسز بلدیاتی اداروں سے بھی منسلک تھے۔ ان رپورٹس میں کرپشن، فنڈز کے غلط استعمال، اور ناقص منصوبہ بندی کے الزامات شامل تھے جو اس پورے نظام کی ساکھ کو متاثر کرتے ہیں۔

عوامی ردِعمل بھی اس نظام کے خلاف واضح طور پر سامنے آچکا ہے۔ پشاور سمیت کئی شہروں میں نمائندوں نے احتجاج کیے کہ ان کو تنخواہیں نہیں ملتیں، ترقیاتی فنڈز نہیں دیے جا رہے اور ان کے دفاتر بند پڑے ہیں۔ عوام کی جانب سے بھی شکایات سامنے آئیں کہ گلی محلوں کے چھوٹے پروجیکٹس یا تو شروع نہیں ہوئے یا بدترین معیار کے ساتھ مکمل کیے گئے۔ اس سے نہ صرف بلدیاتی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگے بلکہ تحریک انصاف کی حکومت کی گورننس پر بھی انگلیاں اٹھنے لگیں۔

اگر صوبائی حکومت اس پورے نظام کو ختم کرتی ہے تو فوری طور پر سالانہ 60 ارب روپے کی بچت ممکن ہے۔ یہ فنڈز تعلیم، صحت، صاف پانی، انفراسٹرکچر، اور روزگار جیسے اہم شعبوں میں منتقل کیے جا سکتے ہیں جہاں ان کا براہِ راست فائدہ عوام تک پہنچ سکتا ہے۔ حکومت اس فیصلے کو مالی کفایت شعاری اور شفافیت کے نکتہ نظر سے پیش کر سکتی ہے جس سے اس کی ساکھ بہتر ہو گی اور پالیسی اصلاحات کا مثبت پیغام جائے گا۔

یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت بلدیاتی نظام کے خاتمے کو “نظام کی اصلاح” کے بیانیے کے ساتھ جوڑ کر اس اقدام کو سیاسی طور پر فائدہ مند بنا سکے۔ اگر کہا جائے کہ حکومت عوامی فلاح کے لیے ایک نیا، شفاف، ٹیکنالوجی بیسڈ نظام لانا چاہتی ہے تو یہ نہ صرف مخالفت کو کم کرے گا بلکہ پالیسی کا مؤثر تاثر بھی پیدا کرے گا۔

اسی طرح اگر بچائے گئے وسائل کو ایک عوامی فلاحی پیکج کی صورت میں پیش کیا جائے، مثلاً “بلدیاتی ریفارمز فنڈ” کے نام سے، تو عوامی تائید حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس اقدام کے ساتھ اگر کرپٹ عناصر کا احتساب بھی شامل کیا جائے تو حکومت اپنی اینٹی کرپشن پوزیشن کو اور مضبوط کر سکتی ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ایک غیر مؤثر، بوجھل اور بدعنوان نظام کو برقرار رکھنا صرف مالی نقصان نہیں بلکہ سیاسی نقصان کا بھی ذریعہ بن رہا ہے۔ عوام جب ترقیاتی منصوبوں کی ناکامی اور نمائندوں کی نااہلی کا ذکر کرتے ہیں تو وہ براہِ راست حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اس بیانیے سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ حکومت اس نظام کی مکمل ری اسٹرکچرنگ کرے یا اسے مرحلہ وار ختم کرے۔

ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کر کے اصلاح کی طرف قدم بڑھانا کسی بھی حکومت کے لیے ایک بالغ نظری کی علامت ہوتا ہے۔ اگر خیبر پختونخوا حکومت ایسا قدم اٹھاتی ہے تو نہ صرف مالی بوجھ کم ہو گا بلکہ گورننس کے نظام کو از سر نو ترتیب دینے کا موقع بھی ملے گا۔ یہ ایک فیصلہ کن موڑ ہو سکتا ہے جہاں تحریک انصاف اپنی پالیسیوں کو ازسر نو متعین کر کے عوامی حمایت دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔

یہ پورا معاملہ صرف نظام کے خاتمے کا نہیں بلکہ ایک سیاسی اور مالیاتی ری سیٹ کا ہے۔ ایک ایسا ری سیٹ جو حکومت کو بہتر عوامی خدمات، مالیاتی استحکام، اور صاف و شفاف حکمرانی کی طرف لے جا سکتا ہے — اگر یہ فیصلہ بروقت اور بصیرت سے کیا جائے۔

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!