امتحانی ہال اور ہمارا مستقبل
دھڑکنوں کی زبان
محمد جاوید حیات
امتحان ایک سنجیدہ جائزہ ہوتا ہے، کسی بھی صلاحیت کو پرکھنے کا جائز اور منصفانہ طریقہ۔ اگر اس عمل میں تھوڑی سی بھی کوتاہی کی جائے تو اس صلاحیت کے ساتھ انصاف نہیں ہو پاتا۔ دنیا میں کوئی کام ایسا نہیں کہ اس کا کوئی نتیجہ نہ ہو، اور نتیجے ہی پر کام کے معیار کا انحصار ہوتا ہے۔
ہمارے ملکِ خداداد میں دو عظیم المیے ہیں: ایک یہ کہ صلاحیت کی قدر نہیں، دوسرا یہ کہ جائزے کا کوئی معیار نہیں۔ ایک ایسا ملک جس میں کسی کو نوکری دیتے ہوئے، ذمہ داری سونپتے ہوئے، رہنما بناتے ہوئے معیار کا جنازہ نکالا جاتا ہے، ایسا ملک کس بنیاد پر آگے جائے گا؟
میں اس وقت امتحانی ڈیوٹی پر ہوں۔ جب یہ سب کچھ سوچتے سوچتے امتحانی ہال میں داخل ہوتا ہوں تو اس میں موجود میرا مستقبل ڈگمگاتا ہے۔ میں پریشان ہوتا ہوں، میرے اردگرد اندھیرا چھا جاتا ہے۔ میرے ساتھ امتحانی عملہ ہے۔ یہ ہیں ابراہیم صاحب، ہیڈ ماسٹر ہیں۔ یہ ہیں شبیر احمد خواجہ، سی ٹی پوسٹ پر ہیں۔ یہ ہیں مولانا شہاب الدین، قاری پوسٹ پر ہیں۔ یہ ہیں شگوفہ، انگریزی ادب میں ماسٹر ہیں اور اچھی اُستاد ہیں۔ ان سب کے اپنے اپنے احساسات ہیں۔
جب میں امتحانی ہال میں داخل ہوتا ہوں تو دیانت، صداقت، امانت وغیرہ یاد آتے ہیں، پھر یکلخت سب بھول جاتا ہوں۔ میرے سامنے موجود چہرے ان ساری صلاحیتوں سے خالی لگتے ہیں۔ میں خود ان صلاحیتوں سے خالی ہوں۔ میں اُستاد ہوں، مجھے خود ان کے چہروں پر خود اعتمادی کا رنگ بھر کر ان کو امتحان کے لیے تیار کرنا تھا۔ میں نے ان کے چہروں میں خود اعتمادی کا رنگ نہیں بھرا، ان کے لہجوں میں صداقت کی مٹھاس نہیں گھول دی۔ ان کو یہ نہیں پڑھایا کہ مہارتیں چوری نہیں کی جا سکتیں، “تعلیم” حاصل کی جاتی ہے، چوری نہیں کی جاتی۔
سب سے گھناونا جرم اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔ یہ سارے چہرے مجھے غیرت سے عاری لگتے ہیں۔ مجھے فخر موجودات ﷺ کی حدیث یاد آتی ہے کہ “علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے”، پھر یکایک یاد آتا ہے کہ “مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا”۔
مجھے آئن سٹائن یاد آتا ہے، معمولی کلرک کا ایک آرٹیکل چھپتا ہے، پھر دوسرے لمحے اسے اٹھا کر ایک لیب میں بٹھایا جاتا ہے، خزانے کی چابیاں اس کو تھما دی جاتی ہیں۔ اس کے ٹیلنٹ کو موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ قائداعظم کو ٹیلنٹ پر ایمان تھا۔ مجھے یاد آتا ہے کہ محمد علی جوہر انگریزوں کی انگریزی تحریریں درست کرتے تھے۔
مجھے یاد آتا ہے کہ سی ایس ایس کے امتحان میں خود پروین شاکر کی شاعری پر سوال آیا تھا اور وہ امتحان میں بیٹھی تھی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ علامہ المشرقی نے “صفر” پر آکسفورڈ یونیورسٹی میں دو دن تک لیکچر دیا تھا لیکن ٹاپک مکمل نہیں ہوا تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ قدرت اللہ شہاب کے انگریزی کے اُستاد نے ان کو سو کی جگہ 105 نمبر دیے تھے، پوچھنے پر کہا تھا: “کیونکہ میں اس سے زیادہ نہیں دے سکتا”۔
مجھے شاہ ولی اللہ، تقی عثمانی اور مولانا مودودی یاد آتے ہیں۔ یکایک پروفیسر خورشید احمد یاد آتے ہیں، جن کا انتقال ابھی ابھی ہوا ہے۔ یہ سب کسی نہ کسی انداز سے اسی امتحانی عمل سے گزرے تھے۔ لیکن امتحانی ہال میں مجھے ان چہروں میں سے کوئی ان جیسا چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ میں افسردہ ہوتا ہوں۔ شگوفہ میری افسردگی سے پریشان ہوتی ہے۔ کہتی ہے: “سر! اس میں ہمارا بھی قصور ہے، ہم مجرم ہیں۔”
اس لمحے مجھے اپنا وزیرِ اعظم، صدر اور حکمران یاد آتے ہیں۔ پھر مجھے وہ ایم پی اے، ایم این اے یاد آتے ہیں جنھیں نہ ٹھیک طرح سے انگریزی آتی ہے، نہ اردو، نہ سیاست، نہ وہ درست طریقے سے تقریر کر سکتے ہیں۔ پھر مجھے وہ سارے پرنسپلز، ہیڈ ماسٹرز یاد آتے ہیں جن سے میں کبھی مطمئن نہیں ہوا۔ پھر مجھے وہ سارے اساتذہ یاد آتے ہیں جن کو اپنی معلمی کی لاج رکھنے کا احساس تک نہیں۔
میں شگوفہ کی بات پر کان دھرتا ہوں۔ میرے سامنے میری تربیت کیے ہوئے پودے ہیں، میرے سینچے ہوئے پودے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ میں نے کلاس روم میں ان کو کیا پڑھایا ہے؟ ان کو کس صداقت کا درس دیا ہے؟ کون سی خودی پڑھائی ہے؟ کب ان کو پڑھاتے پڑھاتے تھکن سے چور چور ہو چکا ہوں؟
مجھے اپنی کلاس میں دیر سے جانا، جلد نکلنا یاد آتا ہے۔ بے جا چھٹی کرنا، ان کا وقت ضائع کرنا یاد آتا ہے۔ اپنا طریقۂ تدریس یاد آتا ہے۔ اسکولوں میں کوئی لیبارٹری نہیں، کوئی سائنس روم نہیں، کوئی ریسورس روم نہیں، کوئی پریکٹیکل نہیں ہوتا۔ کوئی عملی کام، انفرادی یا اجتماعی کام نہیں۔ بچوں کو نئی دنیا کے تقاضوں سے واقفیت کی صلاحیت نہیں۔ بچوں کی چھپی صلاحیتوں کا ادراک نہیں۔
اسکولوں میں جزا، سزا اور سرزنش کا تصور نہیں۔ امتحانوں میں فیل، پاس کا تصور نہیں۔ غیر حاضری کوئی جرم نہیں۔ ہوم ورک نہ کرنا کوئی قصور نہیں۔ باپ بچے کا نہ پوچھے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ایم فل، پی ایچ ڈی تک کاپی رائٹنگ ہو، بس ڈگری ملے۔ کسی کا تحقیقی مقالہ کسی کام کا نہیں۔
اُستاد کا مسئلہ صرف تنخواہ بڑھانا، تنخواہوں میں سالانہ اضافہ، امتحانی ڈیوٹی، قریب اسٹیشنوں میں تبادلہ، اتفاقی اور استحقاقی چھٹیاں، کسی کی غمی خوشی میں شرکت، گاؤں کے سماجی کام، سیاسی وابستگیاں—یہ سب یاد آتے ہیں۔
پھر کلاسوں کا خالی ہونا، بچوں کا شور شرابا، موسمی حالات، بے جا چھٹیاں—یہ سب یاد آتے ہیں۔ پھر یہ سارے چہرے، جن کو کسی نے محنت کا درس نہیں دیا۔ ان کو یہ نہیں بتایا کہ زندگی گزارنے کی چیز نہیں، یہ میدانِ کارزار ہے، میدانِ جنگ ہے۔ اس کو گزارو نہیں، اس سے لڑو۔ لڑو۔
سارے چہرے مردہ ہیں، کسی غیبی مدد کے انتظار میں۔ کوئی مدد، کوئی تباہی ان کی منتظر، جس کو وہ “تعاون” کہہ کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ کیسا مستقبل ہوا؟ اس ہال میں بدعنوانی سکھائی جاتی ہے، ایمانداری کا جنازہ نکلتا ہے۔
یہ بچہ، جس کی رگوں میں دوڑنے والا گرم خون سرد پڑ جاتا ہے۔ یہ کل سی ایس ایس آفیسر بنے گا؟ یہ ڈاکٹر بنے گا؟ یہ کیسے بنے گا؟ اس کی صلاحیتیں چوری ہو گئی ہیں، اس کا ٹیلنٹ بے موت مر چکا ہے۔ اس کے سامنے جو اُستاد کھڑا ہے، یہ روبوٹ ہے۔ یہ ایمانداری کا عملی مظاہرہ کیوں نہیں کرتا؟ اس کی قیمت کھانے کی دعوت سے لگائی جا سکتی ہے۔ چائے پلا کے احترام کا نام دیا جاتا ہے۔
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ سائنسی ترقی عروج پر ہے۔ ٹیکنالوجی نے قوموں کو غلامی سے اُٹھا کر آقا بنا دیا ہے۔ اُستاد سوچتا ہے کہ کیا اس کے پاس صرف دعا رہ گئی ہے؟ اس امتحانی ہال میں کسی کے چہرے پر سائنسدان کی عظمت کی روشنی نہیں پھیلتی۔ صداقت اور ایمانداری کا جھومر کسی کی پیشانی پر نہیں۔
پروفیسر عالم زیب کی آواز آتی ہے
“بچو! نقل نہ کرو۔ جب نقل نہ کرو گے تو ایک سال کے لیے فیل ہو جاؤ گے، اگر نقل کرو گے تو ساری زندگی تباہ ہو جائے گی!”
شگوفہ، ہمارا مستقبل کیا بنے گا؟
“سر! اس سوال کا جواب میرے پاس بھی نہیں
آگے سوچتا ہوں تو میرے سارے امتحانی عملے کے پاس بھی نہیں۔
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب یقین کٹا تب نگین ہوا