زبان وادب کا میلہ
داد بیداد
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
فروری کا مہینہ مادری زبانوں کو یاد کرنے کے لیے وقف ہوتا ہے۔ اس مہینے کے آخری ہفتے وطن پاک کے ہر شہر میں مادری زبانوں پر کام کرنے والوں کی گہماگہمی عروج پر تھی۔
الحمرا آرٹس کونسل لاہور کے تمام ہالوں کو خصوصی طور پر سجایا گیا تھا ارد گرد جو چمن اور راہداریاں بنی ہیں۔ ان میں کتابوں کی نمایش لگی تھی۔ ملک بھر کے قابل ذکر پبلشروں نے دیدہ زیب اور بامعنی سٹال لگانے ہوے تھے۔ صدر دروازے پر ڈھول اور شہنائی کی دھنوں پر وقفے وقفے سے دھمال ہو رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ مادری زبانوں کی سالگرہ ہے۔ چار ہالوں میں بیک وقت ادبی اجلاس ہورہے تھے۔ بعض اجلاس ایسے تھے کہ بندہ دونوں سے مستفید ہونا چاہتا تھا مگر ممکن نہ تھا۔ پہلے ہال میں افتخار عارف کی گفتگو ہے نور الہدی شاہ اور اصغر ندیم سید شریک گفتگو ہی ایک اور ہال میں استنبول بازنطینی،عثمانی اور اردوانی عہد پر مصنف لوکاس کوبن کے ساتھ آمنہ علی کا دلچسپ مباحثہ ہےاب بندہ حیرت سے دیکھتہےکس طرف جاے ایک طرف رخ روشن ہے دوسری طرف شمع محفل گویا پروانے کی آزمایش ہے
یہ آخری آزمایش نہیں اس طرز پر اکیس اہم اجلاس رکھے گئیے ہیں یہاں لاہور کا مغل ورثہ آرٹ،ارکیٹیکچر زیر بحث ہے وہاں مصنف اور دانشور ناصر عباس نئیر کے ساتھ سنگ میل پبلی کیشن کے ایاز احمد دل کے تاروں کو چھیڑنے والی بات چیت کر رہے ہیں ایمان مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگےنوبت یہاں تک آگئی کہ ہال نمبر ایک میں فریال گوہر کا سیشن تھا ہال نمبر چار میں ڈاکٹر اباسین یوسفزی مادری زبانوں کے مستقبل پر گفتگو کر رہے تھے۔
ان کے پینل میں بحرین سوات سے زبیر توروالی کوہاٹ سے حنا رؤوف اور چترال سے مجھے شام ہوناتھا،مرتا کیا نہ کرتا ڈاکٹر اباسین یوسفزی کے سیشن میں جا بیٹھا سوال یہ تھا کہ محقق گریر سن نے ہندوکش قراقرم کی زبانوں کو دردی زبانوں کا نام کیوں دیا ؟ جواب یہ آیا کہ آگے جاکر ہند آریائی زبانوں کی اس شاخ کو بیدردی کے ساتھ کچلا جانا تھا اس لیے دردی نام ٹھیراسیشن میں پشتو،ہندکو،تور والی اور کھوار زبانوں کے ماضی، حال اور مستقبل پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
یہ بات خوش آیند تھی کہ ہماری مادری زبانوں کے ادیب، شاعر اور دانشور جدید دور میں سوشل میڈیا خصوصی طور پرفیس بک اے آئی اور یوٹیوب سے بھر پور کام لے رہے ہیں جو زبانوں کے روشن مستقبل کی نشانی ہے۔ سیشن کی میزبان شاہدہ شاہ نے بحث کو سمیٹ لیا تو ہماری نظر سامنے ایک اور بینر پر پڑی، اسی ہال کی پہلی منزل میں چترال کی موسیقی پر ایک دستاویزی فلم دکھائی جارہی تھی۔ نیشنل کالج آف آرٹس کی چترالی طالبہ مہروش عالم نے فنون لطیفہ میں خواتین کے کردار پر فلم بنائی تھی ملک بھر سے آنے والے دانشوروں نے دلچسپی کے ساتھ فلم دیکھی اور طالبہ کے کام کو سراہا تو چکدرہ لویر دیر سےتعلق رکھنے والے دوست شہزاد حسین درانی نے چمن کے ایک گوشے میں گشتی لایبریری کی خوبصورت گاڑی ہمیں دکھائی یہ ڈیولپمنٹ ان لٹریسی نام کے ادارے کی گاڑی تھی ادارہ سکولوں میں میں جاکر طلبا اور طالبات کو کتب بینی کی ترغیب اور سہولت دیتا ہے۔
چئیر پرسن مادام قرتہ العین نے بتایا کہ وہ کتابوں کی عطیات جمع کر کے ایسے تعلیمی اداروں کو دیتی ہیں جہاں کتابوں کی ضرورت ہے ایک شام کوشیر میاں داد خان اور ہمنواؤں کی دل کو چھونے والی قوالی ہوئی لاہور لٹریچر فیسٹیول میرے لیے اس لحاظ سے دلچسپ میلہ تھا کہ یہاں آنے سے پہلے میں اندلس کے شہر غرناطہ میں نصیری دور کا الحمرا دیکھ کر آیاتھا ہسپانیہ کے اسلامی عہد کی بے مثال یادگار کی ایک نشانی لاہور شہر میں چوتھی بار دیکھ کر پہلے سے بڑھ کر لطف آیا۔