شہری منصوبہ بندی
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
خیبر پختونخوا کی چار نئی بستیوں میں گھومنے پھرنے کا اتفاق ہوجائے تو ہر محب وطن شہری سر پیٹ کر رہ جاتا ہے۔ شہری منصو بہ بندی کے بغیر کس طرح یہ بستی بسائی گئی، انجینر کیوں نہیں بلایا گیا ٹاون پلا ننگ کے ماہرین کی خدمات کیوں حاصل نہیں کی گئیں پلا ٹوں کی الاٹمنٹ سے پہلے بستی کا نقشہ کیوں نہیں بنایا گیا نکاسی آب کے لئے نالیوں اور پیدل چلنے والوں کے لئے دو فٹ کی جگہ کیوں نہیں چھوڑی گئی الاٹیوں پر ٹاون پلا ننگ کے قوانین کی پابندی کیوں لا زم نہیں کی گئی تجاوزات پر پا بندی کیوں نہیں۔
صوبائی دارالحکومت پشاور کی جدید بستی حیات اباد میں امریکہ سے آئے ہوئے افغان شہری نے مجھ سے تین نئے سوال پوچھے تو میرا سر دُکھنے لگا۔ جواب نہ ہو تو سر میں در د ہوتا ہے۔ میرے افغان دوست نے پوچھا کہ بارش نہیں ہوئی گلی میں اتنا سارا پانی کیسے جمع ہوا۔ مجھے خا موش دیکھ کر اُس نے پوچھا کیا یہاں ٹاون پلا ننگ نہیں ہوتی۔ میرے پاس جوا ب تھا مگر ’’نہیں با لکل نہیں‘‘ کہتے ہوئے مجھے شرم آئی۔ اُس نے تیسرا سوال داغ دیا اتنی بڑی رقم یعنی عمر بھر کی جمع پونجی خرچ کر کے گھر تعمیر کرنے والے شہری اس بے قاعدگی پر شور کیوں نہیں مچا تے۔ میں چپ رہا لیکن مجھے اس پر سوچنا پڑا سوچتے ہوئے مجھے نیپال، تھا ئی لینڈ اور ایران کی نئی بستیوں کا بھی خیال آیا۔ پنجا ب کی نئی بستیوں کا بھی خیال آیا میں نے سو چا اگر خیبر پختونخوا میں افرا دی قوت کی کمی ہے، انجینروں کی کمی ہے، اچھے سر وئیر اور قابل ڈرافٹس مین نہیں ملتے تو پنجاب سے انجینر، ٹاون پلا نر اور سروئیر کیوں نہیں بلا تے۔ نئی ہاوسنگ سکیمین لوگوں کو بہتر طرز زندگی والی سہولیات دینے کے لئے بنتی ہیں۔ اگر نئی ہا وسنگ سکیم میں 3کروڑ روپے یا 4کروڑ روپے کا گھر تعمیر کرنے کے بعد بھی ایک کھاتا پیتا شہری کچی آبادی کی طرح گندھے پانی کے جو ہڑ سے صبح شام گذرتا ہے تو نئی بستی اور جدید ہاوسنگ سکیم کا کوئی فائدہ نہیں۔
اس بات کا کسی کو احساس تک نہیں سردیوں میں الرجی کی بیما ریاں آتی ہیں اور گر میوں میں ڈینگی بخار انہی جو ہڑوں سے پھیلتا ہے اس معا ملے میں سٹینڈرڈ اپرٹینگ پرو سیجر مو جو د ہے اس پرو سیجر کے تحت ہر گلی میں نکا سی آب کی سیو ریج لائن ہونا لا زم ہے گلی کی پیو منٹ میں چارحصے ہوتے ہیں درمیان میں 12فٹ سڑک دونوں کنا روں پر سیو ریج کی پکی نا لی ، دونوں کنا روں پر نا لی کے ساتھ شو لڈر اور پیدل کا راستہ ان لوا زما ت کے بعد الاٹیوں کے لئے نقشے کے مطابق گھر کی تعمیر کا قانون ، اس قانون کے تحت کوئی الا ٹی گلی کی سڑک سے دروازے تک سیڑھی نہیں بنا سکتا یہ قانون کے تحت جر م ہے اس پر الا ٹی کے خلا ف ایف آئی آر ہوسکتی ہے، قید اور جرما نے کی سزا ہوسکتی ہے مگر یہاں گنتا کون ہےگلی کے اندر 7فٹ کی سڑک ہوتی ہے۔ نکاسی آب کی کوئی نالی نہیں ہوتی سڑک کے دونوں طرف الاٹیوں نے گاڑی کے لئے 4فٹ اونچا ڈھلوان اور ڈھلوان کے ساتھ سیڑھیاں بناکر اپنے گھر کے دروازے تک پہنچا یا ہوا ہے۔ 40گھروں والی گلی میں ہر روز چارالاٹی اپنی موٹریں دھوتے ہیں اور کم ازکم 8الا ٹی اپنے گھروں کے فرش سرف سے دھو کر سارا پانی گلی میں بہاتے ہیں جو ہر وقت جوہڑ بنا رہتا ہے۔
اب میں امریکہ پلٹ افغانی کو کیسے بتاتا کہ ہمارے ملک میں چار چیزوں کی کمی ہے۔ ٹاون پلا ننگ اور لینڈ یوز کا کوئی قانون نہیں ہے، کسی ہاوسنگ اتھارٹی میں اس شعبے کا ماہر کبھی بھر تی نہیں ہوا پس مناسب افرا دی قوت کی شدید کمی ہے موزوں افیسروں کا فقدان ہے، تیسری کمی یہ ہے کہ جن کو پلا ٹ الاٹ ہوتا ہے ان کو اپنی دولت، اپنی کمائی اور جمع پونجی کی کوئی قدر نہیں انفراسٹرکچر تیار ہونے سے پہلے گھر تعمیر کر تے ہیں اور اپنے حقوق کا مطا لبہ نہیں کر تے۔
چوتھی کمی یہ ہے کہ گھر وں میں رہا ئش اختیار کرنے کے بعد 4کروڑوں روپے لگا نے والا مکین اپنے ارد گرد ما حول کی آلو د گی کو نہیں دیکھتا احتجا ج نہیں کرتا آواز نہیں اٹھا تا ان بنیا دی خا میوں کی وجہ سے جدید رہا ئش سکیم بھی کچی آبادی کا منظر پیش کر تی ہے اور کروڑوں روپے لگا کر گھر بنا نے والا بد بو دار پا نی کے جو ہڑ میں زند گی گذارتا ہے۔ یہ بات ثا بت ہو چکی ہے کہ خیبر پختونخوا میں گذشتہ 50سالوں کے اندر کوئی آرکیٹیکٹ یا انجینئر پیدا نہیں ہوا، اکیسویں صدی میں حکومت کو پنجا ب سے موزوں افرادی قوت لاکر جدید بستیوں کی منصو بہ بندی کر نی چاہئیے۔