قرطبہ کی عظیم الشان مسجد
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
ہسپانیہ میں مسلمانوں کی آٹھ صدیوں پر محیط حکمرانی کے بہت سارے انمٹ نقوش پایے جاتے ہیں۔ ان میں الحمراء کے محل کے بعد قرطبہ کی مسجد سب سے نمایاں ہے۔ ہم نے قرطبہ شہر میں داخل ہوکر مرکزی مقام کا انتخاب کیا۔ مسجد قرطبہ کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ اس کا نام موزکیتا کیتھیڈ رل) ہے اور دو گلیاں چھوڑ کر تیسری گلی میں اس کا مینار نظر آتا ہے۔ ہم نے مینار کا تعاقب کیا اور مینار والی گلی میں پہنچ کر حیرت اور تعجب میں پڑگئے۔ بیرونی دیواروں کا حسن، اونچے اونچے دروازوں کا دبدبہ اور مینار کی عظمت نے آنکھوں کو خیرہ کر دیا مختصر سائن بورڈ پر موزکیتا کیتھڈرل لکھا تھا یہ بڑے گرجا گھروں کے ناموں میں سے ایک نام ہے دیگر نام چرچ اور بیسے لیکہ بھی ہیں جو اہمیت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
کیتھڈرل کا مقام ان میں سب سے اونچا ہے۔ ہماری پہلی حیرت یہ تھی کہ اب اس کا نام مسجد نہیں تو اس کی زیارت کس لئے کی جائے۔ فاروق نے کہا اس کے طرز تعمیر کو دیکھنے کے لئے زیارت ضروری ہے۔ بڑے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھلا تھا اندر داخل ہوئے صحن میں مالٹوں کا باغ نظر آیا۔ باغ سے گذرکر ٹکٹ گھر تک جانے میں 10منٹ لگے، ٹکٹ گھر سے معلوم ہوا کہ امروز کے لئے ٹکٹ دستیاب نہیں اگلے دن صبح 10بجے سے 11بجے تک چرچ آزاد ہوگا اسکے بعد 2بجے کھلے گا ہم نے سوچا ایک گھنٹہ کافی نہیں اس لئے 2 بجے سے 6بجے تک چار گھنٹوں کا ٹکٹ لے لیا ٹکٹ کے ساتھ خود کار آڈیو گائیڈ کی پر چی مل گئی گائیڈ والا فون آلہ سما عت کے ساتھ مسجد میں داخلے کے وقت ہ میں دیدیا گیا اگلے دن مقررہ وقت پر مسجد کے صحن میں داخل ہوئے تو باغ کی دوسری طرف زائیرین کی لمبی لائن لگی ہوئی تھی ہم بھی قطار میں لگ گئے۔ تھوڑی دیر میں کیتھڈرل کے اندر پادریوں کا پروگرام ختم ہوا، لوگ دوسرے دروازے سے با ہر نکلے تو ہمارے سامنے کا دروازہ کھلا اندر داخل ہونے سے پہلے مجھ سے کہا گیا کہ ٹو پی دستی بیگ میں رکھو، جوتے پہن کر جاءو ایک سیاح کتے کی رسی تھام کر آیا اُس کو کتے کے ساتھ اندر جانے کی اجازت ملی ہم نے کہا یا للعجب! کسی کے دیکھتے ہی ساقی کے ایسے ہو ش اڑے کہ شراب سیخ پہ ڈالی کتاب پیالی میں فاروق نے لقمہ دیا۔
حسرت موہانی نے کیا بات کہی ہے جنون کا نام خرد پڑگیا خرد کا جنون جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
مسجد کے اندر داخل ہونے کے بعد حیر توں کالا متناہی سلسلہ شروع ہوا قرطبہ کی اسلا می حکومت کے سربراہ عبد الرحمن الداخل کو عباسیوں کی حکومت میں دمشق سے نکالا گیا تو وہ مراکش کے راستے بڑی تکلیفیں جھیل کر ہسپانیہ میں داخل ہوئے یہاں غرناطہ کی اسلا می ریا ست 711عیسوی میں قائم ہوئی تھی 749عیسوی میں عبد الرحمن الدافل ہسپانیہ آئے اور 6سالوں کی جہد مسلسل کے بعد قرطبہ کی اسلامی حکومت قائم کی قرطبہ کے شہر میں اس مسجد کی بنیاد 758ء میں رکھی گئی مو جودہ عمارت 3مرحلوں میں بنی ابتدائی دور کی مسجد کے ستون بڑے بڑے چو کور بنیادوں پر قائم ہیں دوسرے اور تیسرے مرحلوں میں الحاکم اور المنصور اموی نے مسجد کی توسیع کی اس کے ستوں گول بنیادوں پر ایستادہ ہیں اور ستونوں کے درمیاں چھت کے محرابی حاشیے دوگانہ بنا ئے گئے ہیں۔
پہلے ایک محرابی حاشیہ اس کے اوپر دوسرا محرابی حاشیہ اور اس کے اوپر چھت، ابتدائی تعمیر میں منقش لکڑی کی چھت اور سفید سنگ مرمر کا فرش ہے توسیع شدہ حصے میں ریت اور چونے کی چھت کے نیچے سرخ سنگ مرمر کا فرش ہے چھت اور ستونوں پر باریک کام ہواہے پوری مسجد میں ہلکارنگ استعمال ہوا ہے 1236عیسوی میں خلا فت اسلا میہ کے زوال کے بعد مسجد کو گرجا بنالیا گیا توعیسائیوں کے بادشاہ فرڈ یننڈ سوم کو افتاح کے لئے بلایا گیا اس نے مسجد کے اندر کانسی کا بنا ہوا کالا گرجا دیکھا تو سپینش میں ایک جملہ بولا جس کا تر جمہ ہے’’ محمل میں ٹاٹ کا پیوند ‘‘ چنانچہ مسجد کے اندر پادریوں نے بزرگوں کی قدآدم تصاویر اور مجسموں کو سجایا ہوا ہے جگہ جگہ بنج اور کرسیاں رکھ کر سامنے مجسموں سے مزین سٹیج ہے محراب کو مشکل سے تلا ش کیا محراب اسلا می طرز تعمیر اور آرٹ کا نادر اور اعلیٰ نمونہ ہے محراب کے اوپر چار دائیروں میں آیات قرآنی کی خطاطی ہوئی ہے سب سے اوپر اللہ کی وحدانیت اور دین خالص پر سورہ زمرکی آیتیں ہیں اس کے نیچے سورہ بقرہ کی آیت الکر سی ہے اس کے بعد سب سے قریبی سطر پر جو آیت ہیں وہ سورہ حشر کے آخری رکوع کی تین آیتیں ہیں محراب کے سامنے سے واپس آنے کو جی نہیں چاہتا مگر جہاں محراب خود کسی اورکی قید میں ہو وہاں زائر کیا کرے محراب کی طرح پوری مسجد کے 360ستون اور اس کی بے مثال دیواریں اسلامی آرٹ اور خطاطی کے حسین نمونوں سے مزین ہیں ہم نے بادل ناخواستہ باہرنکل آکر مسجد کے قریب بہنے والے دریا وادی الکبیر کا رخ کیا مسجد کو الوداع کہتے ہوئے دل نے گو اہی دی پوشیدہ تیری خاک میں سجدوں کے نشان ہیں خاموش آذانیں ہیں تیری باد سحر میں جہاں بھی گئے علا مہ اقبال یاد آگئے یہاں بیٹھ کر دریا کو یوں مخاطب کیا تھا اور کہا تھا آپ روان کبیر تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب کلام اقبا ل میں عبدالرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا درخت بھی آیا ہے۔
ہسپانیہ میں مسلمانوں کا عروج اُس وقت ہوا جب ان کی صفوں میں اتحاد اوراتفاق تھا مسلمانوں پر عیسائیوں کا غلبہ اُس وقت ہوا جب آپس کی خانہ جنگی کے سبب 1258ء میں قرطبہ اور 1492ء میں غرناطہ کی اسلامی حکومتیں غیروں کے ہاتھوں لٹ گئیں۔
علا مہ اقبال نے یہ بھی تو کہہ دیا ہے
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاوس ورباب آخر
قرطبہ کے شہر میں اب بھی ابن رُشد، ابو القاسم زہر اوی، ابن حزم اور قر طبی کے آثار ملتے ہیں نئی مساجد کا انتظام مسلمانوں کی تنظیم جنتا اسلا میکا اسپانہ کے پاس ہے اس کے صدر شیخ ہا شم کی ریٹا ئرمنٹ کے بعدآخر میں ایک اور مسلم سکالر مسز ازا بیلہ روما نیرو اس کی سر براہی کر تی ہیں۔