روزہ داروں کی مشکلات
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
روزہ بہت حساس اور بیحد خصوصی نوعیت کی عبادت ہے اس کا تعلق روزہ دار کے دل اور اللہ پاک کی رحمت کے ساتھ ہے درمیاں میں کوئی تیسرا نہیں اس لئے اللہ پاک کا ارشاد عالی ایک حدیث قدسی کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور اس کا اجر بھی میرے پاس ہے یعنی قضا و قدر کے کارکنان یا فرشتے بیچ می نہیں آتے 1445ہجری کا رمضا ن المبارک ایسے وقت پر آیا ہے جب روزہ اور رمضان پر بات کرنے والوں کے بڑے بڑے گروہوں نے سوشل میڈیا کو سر پر اُٹھایا ہوا ہے۔
فیس بک اور یوٹیوب پر بولنے والے سے سند اور کریڈنشیل پوچھنے کا دستور نہیں ہے کوئی کہتا ہے کہ سحری اور افطار کا اذان سے تعلق نہیں کوئی فتویٰ دیتا ہے کہ استنجا سے روزہ ٹو ٹ سکتا ہے کوئی حکم لگاتا ہے کہ رمضان میں تراویح نا م کی کوئی عبا دت نہیں کوئی فتویٰ لگاتا ہے پا کستانی حافظوں اور قاریوں کے پیچھے ختم القرآن جا ئز نہیں کیونکہ ان کی قرء ت میں تر تیل نہیں کسی کا فتویٰ ہے کہ رمضا ن میں ختم القرآن کا کوئی جواز ہی نہیں الغرض روزہ داروں کے سامنے تشکیک اور اشکالات کا پہاڑ کھڑا کرکے سادہ لوح مسلمانوں کو سراسیمہ کیا جارہا ہے اور رمضان المبار ک کی مخصوص عبادات کے حوالے سے کنفیوژن پیدا کیا جا رہا ہے ایسا شور شرابہ پہلے کبھی نہیں سنا تھا اگر یہ حال رہا تو اگلے چند سالوں میں رمضان المبارک کی مخصوص عبادات سے نئی نسل کو محروم کیا جائیگا جو الحاد زدہ معاشرے میں ایک اور ظلم ہوگا۔
اس طرح کے ابہام کو ختم کرنے کے دو طریقے ہیں پہلا طریقہ یہ ہے کہ یو ٹیو ب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ہر کس و نا کس کو بغیر سند کے گفتگو کرنے کی اجا زت نہ دی جا ئے ایسے چینلو ں کو بند کیا جا ئے جن پر لو گ کسی سند کے بغیر اوٹ پٹا نگ فتا ویٰ جھاڑ تے ہیں جہاں تک پا کستانی قاریوں کے اوپر تر تیل کے بغیر قرآن سنا نے کا الزام ہے اس کا تعلق حفاظ اور قاریوں سے زیا دہ مدارس کے نظام تعلیم سے ہے مدارس میں سبقی اور منزل جس اسلو ب میں پڑھا یا جا تا ہے وہ ’’حدر‘‘ کا مخصوص اسلو ب ہے عرب مما لک، سوڈان، انڈو نیشیا اور تر کی وغیرہ میں ’’حدر‘‘ پڑھانے کا اسلوب ہی جدا ہے حا فظ جس اسلوب میں حفظ کرتا ہے وہ اسلوب پختہ ہوجاتا ہے تلا وت سناتے وقت اسلوب سے ہٹ جائے تو اس کی یاد داشت ساتھ نہیں دیتی، ترتیل میں اونچ نیچ کے لئے حفاظ اور قراء کو انفرادی طور پر ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا بلکہ مدا رس کے اسلوب تدریس پر نظرثانی کرنی پڑے گی۔
جب حفاظ پاکستان میں بھی سوڈان، مصر اور انڈو نیشیا کے اسلوب کو اختیار کر تے ہوئے حفظ کرینگے تو قرآن سنا تے ہوئے حدر کو اسی اسلو ب میں سنا ئینگے اس سال روزہ داروں کو جس نئی مشکل کا سامنا ہے اس کا نام یوٹیلیٹی سٹور ہے حکومت کہتی ہے کہ اشیا ئے خوراک یو ٹیلیٹی سٹور میں سستی ہونگی رمضان پیکیج ملیگا روزہ دار، گھی، آٹا، چینی، دال وغیرہ کے لئے چھ سات گھنٹے سٹور کے با ہر قطار میں کھڑا ہوتا ہے جب اسکی باری آتی ہے تو آٹا اور گھی ختم ہو چکا ہو تا ہے سٹور پر ڈیو ٹی دینے والا ستم ظریف کہتا ہے سرف اور صابن کا نیا سٹاک آیا ہے شیمپو بھی اعلیٰ کوا لٹی کا ہے۔
حکومت نے رمضان کے دوران فروٹ، سبزی وغیرہ کے نر خوں پر کنٹرول کے لئے پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے ڈیسک قائم کئے ہوئے ہیں مگر ان کمیٹیوں کا دارئرہ کار پر چون فروش تک محدود ہے، بڑی منڈیوں میں جو کھرب پتی بروکر اور کمیشن ایجنٹ بیٹھے ہوئے ہیں وہ پرائس کمیٹیوں کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے، مہنگائی کا سر چشمہ ریڑھی بان اور پر چون فروش نہیں مہنگائی بڑی منڈیوں سے آتی ہے اگر منڈیوں کو قانون کے دائرے میں لا یا گیا تو مہنگائی پر قابو پایا جائے گا اسی طرح اشیائے خوراک کے معیار کا مسئلہ بھی ہے گھی، چائے، مصا لحہ جات وغیرہ میں ملاوٹ شہروں کے اندر دو نمبر فیکٹریوں میں ہو تی ہے پرائس کمیٹی اگر ایک پر چون فروش کو سزا دے تو روزہ دار کی مشکل دور نہیں ہو تی جب تک دو نمبر فیکٹریاں قائم ہیں، غیر معیاری اشیا ئے خوراک بازار میں آتی رہینگی مشکلات کا شکار صرف روزہ دار ہے۔