Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

علی گڑھ کے پشوری طالب علم

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کے مشہور ہاسٹل ممتاز ہاوس میں دو پشوری طالب رہتے تھے۔ کمرے میں ان کا تیسرا ساتھی یعنی روم میٹ پٹیالہ سے تھا۔ پشوری طلباء میں ایک کا نام عبد الرحمن تھا دوسرے کا نام غلام مصطفی تھا۔ عبد الرحمن کشمیر سے تھا غلام مصطفی چترال سے تھا۔ پٹیالہ والے ساتھی کا نام ٖفضل امین تھا، عبد الرحمن کا باپ غلام صمدانی مشہور تاجر تھا۔

غلام مصطفی کا باپ علامہ محمد غفران ریاست چترال میں ریاستی حکمران کے ہاں میر مُنشی کے منصب پر فائز تھا، فضل امین کا باپ فضل متین پٹیالہ میں جج تھا۔ 1907ء میں تینوں طلباء انٹرمیڈیٹ کی سطح کے طالب علم تھے علی گڑھ کا ماحول ایسا تھا کہ اس ماحول میں تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی، سماجی اور سیاسی سرگرمیاں بھی ہوا کرتی تی تھیں طلباء اخبارات پڑھتے تھے اور حالات حاضرہ پر دل کھول کر بحث کیا کر تے تھے۔ اکثر اوقات مسلم دنیا پر نو آبادیاتی دور کے اثرات اور برطانوی سامراج کی مسلم دشمن پا لیسیوں کے تذ کرے ہوتے تھے مولانا حسرت موہا نی علی گڑھ سے وابستہ تھے اور کیمپس ہی میں مقیم تھے طلباء کچھ لکھتے تو ان کی اصلا ح کرتے، حو صلہ افزائی بھی کر تے۔

اکثر اوقات طلباء کی ٹو ٹی پھو ٹی تحریروں کو اپنے مجلہ اردوئے معلی میں شائع بھی کر تے مگر ساتھ ساتھ طلباء کو نصیحت کر تے کہ امتحا نات کی تیا ری پر توجہ دو ، اچھے نمر لینے اور اچھے در جے میں امتیاز کے ساتھ پا س ہونے کی کو شش کرو اسی اردوئے معلی میں مضمون چھپنے پر بر طانوی سرکار نے غلام مصطفی کو یو نیورسٹی سے خارج کر وادیا، واقعہ دلچسپ بھی ہے دل خراش بھی ہے یہ 1907ء کے ستمبر کی بات ہے ایک دن طلباء کے درمیان مسلم دنیا پر نو آبادیاتی تسلط کے منفی اثرات کی بحث چھڑ گئی اس بحث کے چید ہ نکا ت میں مصر کے اندر حکومت کی تعلیمی پا لیسی کے نقصانات کا جا ئزہ بھی شامل تھا اس موضوع پر غلا م مصطفی نے ایک مضمون لکھا عنوان تھا ’’مصر میں انگریزوں کی تعلیمی پا لیسی ‘‘ مضمون کو دو نوں ساتھیوں نے پسند کیا عبد الرحمن کا حسرت مو ہا نی کے ہاں آنا جانا بہت زیادہ تھا اس نے مضمون حسرت مو ہانی کو دیا ساتھ تا کید کی کہ لکھنے والے کا نا م اور پتہ نہ دیا جا ئے، اس دوران انٹر میڈیٹ کے امتحانات کی تیا ری ہوتی رہی جب امتحانات ختم ہوئے تو اپریل1908ء میں اردوئے معلی شائع ہوا غلا م مصطفی کا مضمون ایک گمنا م طالب علم کے نام سے منظر عام پر آیا۔

انگریزوں نے حسرت موہانی کو جیل میں ڈالا ان کا پریس ضبط کیا، اردوئے معلی بند ہوا گمنا م طالب علم کی تلاش کا کام پو لیس کے سپیشل برانچ کو سونپ دیا گیا، پو لیس نے تفتیش کا دائرہ آگے بڑھا تے ہوئے محمد امین، عبد الرحمن اور غلا م مصطفی کو شریک ملزم ٹھہرا یا لیکن حسرت مو ہا نی نے سارا جرم اپنے سر لے لیا اور طلباء کو پو لیس کی تفتیش سے بچا لیا تا ہم انگریز کمشنر نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی انتظا میہ پر دباءو ڈال کر تینوں کو تین تین سالوں کے لئے یونیورسٹی سے خا رج کر وادیا، 1911ء میں محمد امین اور عبد الرحمن نے تعلیم مکمل کرنے کے لئے داخلہ لیا، غلام مصطفی کا ذکر ریکارڈ میں نہیں، ان کے مضمون کی تین باتیں بہت خطرنا ک تھیں پہلی بات یہ تھی کہ انگریز مصر کی نئی نسل کو آباؤ اجداد کی ثقافت اور روا یت سے بیگانہ کرنا چاہتا ہے دوسری بات یہ تھی کہ انگریز عربی زبان کی جگہ انگریزی کو رواج دے کر غلا ما نہ ذہنیت کی ابیاری کر رہا ہے، تیسری بات یہ تھی کہ انگریز مصر کی آزادی اور خودمختاری کے خلاف تعلیم کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اس کا دیر پا اثر ہوگا غلام مصطفی کو ممتاز ہا وس علی گڑھ میں آغا جی کے نام سے یاد کیا جا تا تھا، انہوں نے چترال میں زند گی بسر کی 1924ء میں سفر حج کے دوران مکہ معظمہ میں وفات پائی اور جنت المعلیٰ میں دفن ہوئے عبد الرحمن تر کی گئے جہاں انہوں نے نے 1929ء میں جام شہادت نو ش کیا، فضل امین نے پٹیالہ میں 1930ء میں داعی اجل کو لبیک کہا۔

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!