داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
ہمارے ہاں سکول کے لئے مہمان مقرر کا تصورنیا ہے خیبر پختونخوا کی حکومت نے ترقی یافتہ ملکوں کی اس روایت کو ہمارے سکولوں میں متعارف کرانے کی کوشش کی ہے اور یہ بات بار بار محسوس کی گئی ہے کہ سکولوں کے اساتذہ کرام اس کوشش سے خوش نہیں ہیں
منصو بہ یہ ہے کہ کسی بجٹ اور خرچ، اخراجات کے بغیر سکول کے سابق طلباء میں سے یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو کر آنے والے سکالرز کو نیز مختلف مقامات پر عملی زندگی میں ملازمت کرنے والے نمایاں سابق طلباء اور طالبات کو وقت اور موقع کی مناسبت سے مردانہ اور زنانہ سکول میں خصوصی دعوت دیکر ان کا لیکچر رکھا جائے وہ اپنے مادر علمی کے موجو دہ طلباء یا طالبات کو اپنے علمی سفر اور اس سفر کے تلخ و شیرین تجربات سے آگاہ کریں ان کو یہ مسرت بحش احساس دلائیں کہ چند سال پہلے یا کئی سال پہلے یہی میرا سکول تھا یہی میرا کمرہ جماعت تھا یہاں ہماری اسمبلی ہوتی تھی اور یہ اس سکول کی برکت ہے کہ آج اللہ تعالیٰ نے مجھے علمی سفر کی سرخروئی سے نوازا اور عملی زندگی میں عزت کا مقام دیا آج آپ لوگ اس سکول کے طالب علم ہو چند سال بعد تم بھی یو نیورسٹیوں سے فارغ ہوجاو گے عملی زندگی میں قدم رکھو گے ملک اور قوم کا نام روشن کر وگے
ترقی یافتہ ممالک میں مہمان مقرر بلا نا اور طلبہ یا طالبات سے خطاب کروانا تعلیمی کیلنڈر کا حصہ ہے اگر ایک چھوٹے گاوں کے سکول سے نکل کر عملی زندگی میں قدم رکھنے والے 4سابق طلبابڑی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹیو ہیں، 6طلبہ یا طا لبات پی ایچ ڈی یا ایم فل کرکے یونیورسٹیوں میں پڑھا رہے ہیں 5طلباء یا طالبات ڈاکٹر یا انجینئر بن چکے ہیں، 4طلبا یا طالبات فوج میں کپٹن یا میجر ہیں، 10طلبا یا طالبات بڑے سکولوں کے پرنسپل یا کالجوں کے پروفیسر یا سول سروس کے افیسر ہیں تو ان کا باری باری اپنے قدیمی سکول یا مادر علمی میں آکر نو نہالوں سے خطاب کر کے اپنے تجربات سے نئی پود کو آگاہ کرنا سکولوں کے طلبا اور طا لبات کے لئے خوشگوار تجربہ ہو گا عمر بھر یہ تجربہ یا د رہے گا مہمان مقرر کے لیکچر سے طلباء اور طالبات کو اعلیٰ تعلیم اور عملی زندگی میں کا میابیوں کے لئے ایک راہ عمل یا روڈ میپ ہاتھ آئے گا یہ جان کر ان کے حو صلے بلند ہونگے کہ ہمارے گاوں کے اسی سکول سے تعلیم کی ابتدا کرنے والے طالب علم نے زندگی میں اتنی بڑی کامیابیاں حا صل کیں تو ہم بھی ایسی کامیابیاں حا صل کر سکتے ہیں
یہ کوئی مشکل یا کسی طرح نا ممکن کا م نہیں عام طور پر ایسا ہو تا تھا کہ کا لجوں یا یونیور سٹیوں میں داخلے کے بعد ایسے مواقع آتے تھے گیسٹ سپیکر (مہمان مقرر) یا ایکس ٹینشن لیکچر (تو سیعی خطبہ) کے نا م پر سابقہ طلباء یا طالبات میں سے کیس ایک کو بلا یا جاتا یا کسی نامور محقق، صحا فی، وکیل، شاعر، ادیب اور پرو فیسر کو بلا کر ان کا خصوصی لیکچر رکھا جاتا تھا ہم نے پشار یونیورسٹی میں پیرس سے تشریف لانے والے ڈاکٹر محمد حمید اللہ اور کراچی سے تشریف لانے والے پرو فیسر کرار حسین کا تو سیعی خطبہ سنا جو زندگی کے یاد گارواقعات میں شما ر ہوتے ہیں ہم نے ہسٹری ہال میں اے کے بروہی کو سُنا، ایریا سٹڈی سنٹر میں ڈاکٹر شمس الدین صدیقی، ڈاکٹر محمد اسلم، پرو فیسر محمد اشرف، پرو فیسرعبد القدوس ہا شمی، ڈاکٹر ذولفقار گیلا نی، پرو فیسر اسرار الدین اور ڈاکٹر عبید اللہ درانی کے تو سیعی لیکچر سننے کی سعادت حا صل کی لیکچر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ بڑا دلچسپ ہوا کرتا تھا اگر یہ سہو لت پرائمیری، مڈل یا ہائی سکول میں قوم کے نونہالوں کو دستیاب ہو تو کتنی بڑی نعمت اور سعادت ہو گی!
یہ ایسا کام ہے جس کے لئے سکولوں کے اساتذہ ، ہیڈ ٹیچر اور پرنسپل کو خود آگے بڑھ کر پیش رفت کرنی چاہئیے آپ کے سکول کا سابق طالب علم اقوام متحدہ کے کسی اہم عہدے پر یورپ ، افریقہ یا امریکہ میں کام کررہا ہے وہ گاوں میں آکر مہینہ گذار کر واپس جا تا ہے ایک دن بڑی خو شی سے اپنے سابق سکول کو دے دے گا، اسی طرح اگر گاوں کا ایک فرزند کسی نیشنل یا ملٹی نیشنل کمپنی کا چیف ایگزیگٹیو ہے سول سروس کا افیسر ہے یا فو ج کا افیسر ہے سال میں ایک یا دو بار گاوں آتا ہے وہ اپنے مادر علمی کو بڑی خو شی سے ایک دن دے دے گا اگر صوبائی حکو مت کے منصو بے کو سامنے رکھ کر ہر سکول اپنا سالانہ کیلنڈر مر تب کرے اور سکول کے سابق طالب علموں کو مہمان مقرر کے طور پر طلبایا طالبات سے خطاب کی دعوت دے تو سال بھر کا مفید کیلنڈر مر تب ہوسکتا ہے اسا تذہ کرام کو نا راض ہونے کے بجا ئے اس پر خوش ہونا چاہئیے کیونکہ یہ دیئے سے دیا جلنے کا عمل ہے