Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

چرواہا جانتا ہے

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
گرم خبر یہ ہے کہ سڑک بنانے والے افیسروں نے گلگت چترال روڈ پر شندور کے اندر 120سال پرانی سر کاری سڑک کو چھوڑ کرغلط جگہ پر نئے سرے سے سڑک بنانے کے لئے دلدلی زمین اور برفانی گاوں کا انتخاب کیا ہے جس میں کروڑوں روپے کا معاوضہ دلوا کر بستیوں کو اجا ڑنا اور عبادت خانوں کو مسمار کرنا چا ہتے ہیں

مقا می لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمارے اباو اجداد کے زما نے سے لشکروں ، سوداگروں اور سیا حوں کا راستہ دائیں طرف سورج لگنے والے جگے سے گذر تا آیا ہے 120سال پہلے برٹش سرکار نے سڑک بنا ئی تو کار وانوں کے اسی راستے پر اپنی سڑک بنائی ٹیلیفون کے کھمبے اسی جگہ نصب کئے کیونکہ یہ محفوظ جگہ تھی لیکن آج نئی سڑک بنا نے والے افیسروں کو یہ بات سمجھ نہیں آئی وہ نقشہ نہیں جا نتے وہ کتاب نہیں پڑھتے وہ رپورٹ نہیں دیکھتے وہ صرف ایک بات جا نتے ہیں کہ ایک ہزار روپے کی جگہ 10کروڑ روپے خر چ ہونے چا ہئیں تا کہ گلشن کا کاروبار چلے سڑک بنا نے والے افیسروں کے سامنے عقل، منطق، فلسفہ ریاضیات اور سو دو زیان کی کوئی بات قابل قبول نہیں ان افیسروں کی وجہ سے سالانہ کئی پل ٹوٹتے ہیں کئی سڑکیں بر باد ہو تی ہیں کئی عما رتیں ملبے کا ڈھیر بن جا تی ہیں

لیکن یہ افیسر کسی نقصان کو نہیں ما نتے سرکار کے نقصان میں ان کا فائدہ ہے بدامنی اور انتشار سے ان کو روزی روٹی ملتی ہے مولانا اسعد محمود اور وزیراعظم شہباز شریف کو علم نہیں کہ ان کے ماتحت افیسر سڑک کی تعمیر کے نام پر کیا کیا گل کھلا تے ہیں یہ 2001بات ہے جب ہمارے گروپ نے کوئیٹہ کا دورہ کیا اور 1886 میں بنے ہوئے ریلوے ٹریک کو اپنی آنکھوں سے دیکھا برٹش حکومت کے افیسروں نے 1878 میں ریلوے ٹریک پر کام شروع کیا تھا چار سا لوں تک ان کے سارے نقشے ناکام ہو تے رہے چٹانوں کو چیرنا اور پہا ڑوں پر اونچے پلوں کی مدد سے ریل کی پٹڑی بچھانا ممکن ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیا اس اثناء میں بکریاں چرانے والے خانہ بدوش چرواہوں کو انہوں نے آتے جاتے دیکھا تو انگریزوں نے ان چرواہوں کو بلا کر ان سے معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا چنانچہ چرواہوں کو بلا یا گیا اور ان کے سامنے ریل کی پٹڑی کا منصوبہ رکھا گیا

چرواہوں نے کہا ان صحراوں اور پہا ڑوں میں کئی پگڈنڈیاں ہیں جو مہینے کا سفر دو دنوں میں طے کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں انگریزوں نے کہا ہ میں پگڈنڈیاں دکھاو چرواہوں نے کئی دن لگا کر ساری پگڈنڈیاں ان کو دکھائیں انگریزوں نے پوچھا اگر تم سے کہا جائے کہ ان پگڈنڈیوں سے ہزار گز لمبے ریل کی لو ہے کی پٹڑی پر چلا کر دکھاو تو تم کیا کرو گے چرواہوں نے کہا ہم خرگوش اور چو ہے کی مدد سے پٹڑی بچھا ئینگے انگریزوں نے پوچھا وہ کیسے چرواہوں نے کہا جہاں بلندی پر چڑھنا ہو وہاں خرگوش کی طرح اچھلنے کے لئے پل بنائینگے جہاں بلندی پر چڑھنا ممکن نہ ہو وہاں چوہے کی طرح چٹان کو کاٹ کر سرنگ بنائینگے یوں

انہی پگڈنڈیوں سے ریل کی پٹڑی گذرے گی انگریزوں نے ایک چرواہے کو کنسلٹنٹ رکھ لیا اور چار سالوں میں ریل کی پٹڑی ہرنائی سے ہوتی ہوئی افغان سرحد تک پہنچ گئی آج بھی وہی پٹڑی مو جود ہے اور ٹھیک ٹھاک کام دیتی ہے یہ مقا می دانش اور مقامی علم کا کمال ہے جسے یورپ اور امریکہ سے چین، جا پا ن یا کوریا تک سب نے تسلیم کیا ہے پاکستان میں سڑک بنا نے والا محکمہ مقامی لوگوں سے دشمن والا سلوک کرتا ہے ان کی بستیوں کو خواہ مخواہ اجا ڑتا ہے عبادت خا نوں کو کسی ضرورت کے بغیر مسمار کرتا ہے ایک ہزار روپے کی جگہ دو کروڑ روپے لگا کر غلط سڑک بنوا تا ہے اور مقا می آبا دی کو آپس میں لڑا تا ہے شندور کی مو جو دہ سڑک اس جہا لت، کر پشن اور عوام دشمنی کی ایک مثال ہے اگر مولانا اسعد محمود نے اس ناروا ظلم کا نوٹس نہیں لیا تو متاثر ہونے والے لوگ عدالت سے رجوع کرینگے فوجی حکام اور سول انتظا میہ سے مداخلت کی اپیل کرینگے۔

You might also like

Leave a Reply

error: Content is protected!!