Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

کراچی میں کھوار مشاعرے کا انعقاد

کراچی، نمائندہ ایجو تربیہ، اکراچی میں مقیم چترال اور گلگت کے شعراء اور ادیبوں کی تنظیم کھوار اہل قلم حلقہ کراچی کے تحت علوم الحکمۃ اسکول گلشن اقبال میں ایک طرحی و غیر طرحی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس میں کراچی میں مقیم چترال اور گلگت کے کھوار بولنے والے شعراء، علماء، دانش ور، مختلف طبقات زندگی سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات اور عوام الناس نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

مشاعرے میں مولانا شفیع چترالی، لطیف الرحمن لطف، نظام الدین شاکر، اقبال الدین ہمدرد، حافظ خوش ولی خان ولی، عمرحیات راسخ، ڈاکٹر حسین ولی، مفتی محمد اسلم، شہباز انور، شیرین خان ایڈووکیٹ، اسد ارمانی، منور حسین شاکر، علی عباس قشقاری، افضل الدین افضل، احمد امین، عاشق علی، رحمت دوست ،ضیاء الدین، شکیل الرحمن، بہرام علی شاہ، فضل بابا، علی مسکان، میر اکبر خان سمیت درجنوں شعراء نے کھوار زبان میں کلام پیش کیا۔

کھوار اہل قلم کے زیر اہتمام کھوار زبان میں مشاعرہ
کھوار اہل قلم کے سرپرست مولانا لطیف الرحمن لطف کلام سناتے ہوئے

محفل مشاعرہ میں سپریم کورٹ کے وکیل صمصام علی رضا ایڈووکیٹ، سینئر وکیل شیرین خان ایڈووکیٹ، جامعہ انوار العلوم ملیر کے مدیر مولانا شفیق الرحمن گلگتی ،لوح وقلم اسکول کے پرنسپل مفتی عبدالودود ، جامعہ علوم القرآن کے مدیر مولانا عنایت الرحمن، مزار قائد کے فاتحہ خواں قاری شمس الدین، سماجی رہنما رستم خان اور مفتی ولی اللہ چترالی سمیت اہم شخصیات نے شرکت کی ۔

 

ادبی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور کرتے رہیں گے، مولانا محمد دین چترالی

 

مشاعرے کے آخر میں علوم الحکمۃ اسکول کے پرنسپل مفتی محمد دین چترالی نے مختصر خطاب کیا اور مہمانوں و شرکاء سے اظہار تشکر کیا ۔ مفتی محمد دین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آئندہ بھی اس طرح کی مثبت ادبی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کریں گے۔

 

کھوار اہل قلم کے زیر اہتمام کھوار زبان میں مشاعرہ

 

کھوار زبان مشاعرہ میں مولانا محمد دین صاحب خطاب کر رہے ہیں

چترال کی اصل ثقافت کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے ، صمصام علی رضا ایڈووکیٹ

اس موقع پر سینئر قانون دان اور سپریم کورٹ کے وکیل صمصام علی رضا ایڈووکیٹ نے ایجو تربیہ ڈاٹ کام سے گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے چترال کی ثقافت بہت پاکیزہ ہے، ادبی تقریبات کے ذریعے چترال کے اصل کلچر کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے کیونکہ آج کل چترال کی ثقافت کے نام پر ایسی چیزیں پیش کی جا رہی ہیں جن کا ہمارے ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ شرم و حیا ہمارے چترال کا مشترک اثاثہ ہیں اس میں کسی مذہب یا مسلک کی تفریق نہیں ہے، پردہ اور حیا کی تعریف اور تشریح میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن بے ہودگی کے غلط اور ناقابل قبول ہونے کے حوالے سے چترال کے کسی بھی سنجیدہ دانش ور کا اختلاف نہیں ہوگا۔

شہر قائد میں مقیم چترالی نوجوان نئے مواقع اور امکانات سے فائدہ اٹھائیں ،وکیل سپریم کورٹ

انہوں نے مزید کہا کہ جب ہم اسی کی دہائی میں کراچی آئے تھے تو یہاں چترالیوں کی تعداد ہزاروں میں تھی اب لاکھوں میں پہنچ چکی ہے ۔اس وقت کراچی میں چترالیوں کا کوئی اپنا تعلیمی ادارہ نہیں تھا، ہم کراچی میں چترالیوں کے اہم معاملات کے حوالے سے مشاورت کے لیے مولانا محمد ظاہر شاہ چترالی مرحوم کے ہاں جامعہ دارالعلوم کراچی جایا کرتے تھے۔ آج اللہ کا شکر ہے کہ کراچی میں چترالیوں کے اپنے کئی دینی مدرسے اور تعلیمی ادارے ہیں۔ آج کے چترالی نوجوانوں کراچی جیسے شہر میں رہ کر زیادہ کام کرنا چاہیے اور نئے مواقع اور امکانات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

 

 

اسی کی دہائی میں کراچی میں صرف 40 ہزار چترالی تھے آج لاکھوں میں ہیں ،ایجوتربیہ سے گفت گو

صمصام علی رضا ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے 1996 میں چترال ویلفیئر ایسوسی ایشن کی ذمہ داری جب مجھے دی گئی تو اس وقت ہم نے یہاں کراچی میں مقیم چترالیوں کی رجسٹریشن کرائی تھی اس وقت پورے شہر قائد میں 40 ہزار چترالیوں کی رجسٹریشن ہوئی اور یہ اس وقت کراچی میں چترالیوں کی کل تعداد تھی، آج یہ تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!