کراچی میں کھوار
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
کراچی میں کھوار محفل نعت اور مشاعرہ اچھنبے کی بات نہیں اور اگر کوئی عالم دین اپنے مدرسے میں اس کا انتظام وا ہتما م ہر سال تواتر سے کرے تو با لکل تعجب کی بات نہیں سال 2023کی محفل نعت آزاد مشا عرے کے ساتھ جنوری کی 5تاریخ کو مدرسہ انوار العلوم ملیر کراچی میں منعقد ہوئی اس کے منتظم حسب روایت اور حسب سابق مولانا شفیق الرحمن گلگتی المعروف خطیب صاحب تھے مولانا گلگت بلتستان میں چھوٹا کشمیر کہلانے والے خوب صورت گاوں پھنڈر ضلع غذر کے رہنے والے ہیں کھوار ان کی مادری زبان ہے جوغذر، یا سین، اشقومن، پو نیال، گلگت اور چترال میں بولی جا تی ہے، مولانا ایک جدی پشتی متمول اور مخیر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ان کے والد حاجی جمعہ خان علا قے کی معتبر شخصیات میں شمار ہوتے تھے
مولانا شفیق الرحمن نے دارلعلوم کورنگی کر اچی میں مولانا محمد رفیع عثمانی اور مولانا تقی عثمانی مد ظلہ کے زیرسایہ دینی تعلیم حا صل کی سند لینے کے بعد خطیب اور مدرس کے طور پر کراچی میں نمایاں خد مات انجام دیئے اور خطیب صاحب کے نام سے مشہور ہوئے شاد باغ ملیر میں ان کا مدرسہ کراچی کے ممتاز مدارس میں شمار ہوتا ہے دینی اور مذہبی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ سما جی اور معاشرتی اصلاح میں بھی سرگرمی سے حصہ لیتے ہیں عقائد، فقہی مسائل اور شرعی امور میں بے حد سخت گیر ہونے کے باو جود امن، بھا ئی چارہ اور با ہمی محبت کے معا ملا ت میں ہر طبقہ زند گی، ہر مکتب فکر اور ہر مسلک کے لئے اپنے رویے میں لچک اور نرمی کا مظاہرہ کر تے ہیں اس وجہ سے عالی ظرف شخصیات میں گنے جا تے ہیں
گلگت اور چترال کے لو گ جو ق در جوق آپ کے در پر حا ضری دیتے ہیں اور آپ کے حسن سلوک سے متا ثر ہو کر آپ کے گر ویدہ بن جا تے ہیں انوار العلوم کا سالا نہ کھوار مشا عرہ اور مشا عرے سے پہلے محفل نعت کی روایت بھی اس سلسلے کے کڑی ہے اس سال منتظمین کی فہرست میں ڈاکٹر حمزہ گلگتی ، قاری شمس الدین چترالی،مفتی شیر محمد ،مفتی صباح الدین غذری اور مولانا عبد الرحمن عذری بھی شا مل تھے پر و گرام کے مہمان خصوصی یو نیورسٹی آف چترال کے پروفیسر مولانا نقیب اللہ رازی تھے پر و گرام کا عنوان رکھا گیا تھا ’’امن و محبت‘‘ خا ص مہمانوں میں صمصام علی رضا ایڈو کیٹ، رستم علی خان ، میجر منیب الرحمن، مولانا حبیب اللہ چترالی، عنایت شمسی، ظہیر علی صفدر، رحمت علی، اقبال الدین، مولانا عبد الحمید، مولانا اکبر گلگتی، مولانا محمد شفیع شاہد اور منصور علی شباب شامل تھے
پہلی نشست میں نعتیہ کلام کا مقابلہ ہوا منصفین کے فراءض اسد الامین ارمانی، شہباز انور حیات اور لطیف الرحمن لطفی نے انجام دیے، مقا بلے کے 13شر کاء میں قاری صادق اللہ اول آئے مفتی شریف حسین نے دوسرے نمبر پر اور حا فظ سلمان الرحمن نے تیسرے نمبر پر انعام حا صل کیا نظامت کے فراءض خوش گفتار اور خوش گلو سخنور عمر حیا ت راسخ اور فضل رحیم با با کے سپر د کئے گئے تھے جنہوں نے نظامت کا حق ادا کیا، آزاد مشاعرے میں عزیز احمد، سمیع اللہ، محسن الدین ، افسر احمد، سجاد احمد، شہباز صباث، شکیل احمد، فہیم الدین، منور حسین شہیر، ڈاکٹر حسین ولی، لطیف الرحمن لطفی، اقبال الدین ہمدرد، عمر حیات راسخ، شریف حسین مخمور، نقیب اللہ رازی اور منصور علی شباب سمیت کئی کہنہ مشق اور نو جوان شعراء نے سما جی مو ضو عات پر اصلا حی، فکاہی اور متفرق کلا م سنایا
حا ضرین نے شعراء کو دل کھول کر داد دی اس موقع پر شرکاء محفل سے خطاب کر تے ہوئے سپریم کورٹ کے وکیل صمصام علی رضا ایڈو کیٹ نے کہا کہ علمائے کرام انبیاء کے علم کے وارث ہیں معاشرے میں جتنا خیر پھیلتا ہے انہی کے ذریعے پھیلتا ہے اور معاشرے میں شریا فساد کی قوتوں کا زور نظر آیا تو علما ء سے پوچھ گچھ ہوگی انہوں نے مدرسہ انوار العلوم کے مہتمم مولانا شفیق الرحمن کی طرف سے امن و محبت کا پیغام عام کرنے کے لئے مختلف مکا تب فکر کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوششوں کو سراہا اور اپنی طرف سے شہر قائد میں رہنے والے گلگتی اور چترالی بھائیوں کے لئے اس نو عیت کا بڑا مشاعرہ منعقد کرنے کا اعلان کیا تاکہ دیے سے دیا جلا نے کا عمل جاری رہے
اس موقع پر نعتیہ مقابلے کے شرکاء میں انعا مات اور شیلڈ تقسیم کئے گئے نیز انتظامیہ کی طرف سے مہما نوں میں سے صمصام علی رضا ایڈوکیٹ، میجر منیب الرحمن، پرو فیسر مولانا نقیب اللہ رازی اور منصور علی شباب کو اعزازی شیلڈپیش کئے گئے اپنی تقریر میں مہمان خصو صی پرو فیسر نقیب اللہ رازی نے کھوار کی لسا نی اور ادبی خصو صیات کا ذکر کیا، انہوں نے مدرسہ انوار العلوم کے مہتمم مولانا شفیق الرحمن گلگتی اور ان کے رفقائے کار کا شکریہ ادا کیا پرو گرام کو مجھ جیسے دو ر بیٹھے احباب نے آن لائن دیکھا
مجھے فروری 1986کا وہ دن یا د آیا جب میں اپنے بھتیجے حا فظ محمد انور سے ملنے کے لئے حا جی شیر فیاض صاحب کے ہمراہ مدرسہ انوار العلوم ملیر کراچی میں مولانا شفیق الرحمن گلگتی کی خد مت میں حا ضر ہوا تھا جمعہ کا دن اور 9بجے صبح کا وقت تھا، مولانا نے ہ میں شام تک اپنا مہمان بنا ئے رکھا نما ز جمعہ کے بعد ظہرانے سے ہماری پُر تکلف ضیا فت کی سہ پہر کو ہ میں ساتھ لیکر دارلعلوم کر اچی میں مولانا ظاہر شاہ چترالی کی زیا رت کے لئے گئے نماز عصر کے بعد مولانا تقی عثما نی مد ظلہ سے ہماری ملا قات کرائی وہاں سے بنوری ٹاون جا کر مفتی عبد القیوم چترالی سے ہماری ملا قات کرائی اُس دن ہمارا خیال تھا کہ مولا نا شفیق الرحمن کی شفقت و مودت ہمارے ساتھ خا ص ہے بعد میں معلوم ہوا کہ مولانا کی محبت سب کے لئے ہے کر اچی میں تما م مکا تب فکر سے تعلق رکھنے والے احبا ب کو یکجا کر کے مادری زبان کھوار میں مشاعرہ منعقد کرنے کی روایت بھی اس محبت کا نتیجہ ہے بقول شاعر
ان کا جو کا م ہے اہل سیا ست جانیں
میر اپیغام محبت ہے، جہاں تک پہنچے
حلال مشاعرہ اور حلال کرنے کی سعی