الخدمت کی کامیابی ۔ اجتماعی شادی
دھڑکنوں کی زبان
محمد جاوید حیات
فلاح اور نیکی کا کام جو بھی کرئے قابل تحسین ہے۔۔وہ فرد ہو کوئی ادارہ ہو یا حکومت۔۔ اس کی قدر ہونی چاہیے اس پرُ اشوب دور اور اس بے ہنگم معاشرے میں لوگوں کو اپنی جان کی پڑی ہو ان کے تکالیف کو محسوس کرنا ان کی بے لوث خدمت کرنا اور ان کی مدد کرنا بھلائی کا کام ہے اس خود عرض اور لالچ کے دور میں اچھے خاصے انسان پتھر ہیں۔۔ درندے ہیں۔۔اگر فلاح انسانیت کی فکر ہوئی تو اُمید باندھی جاسکتی ہے کہ فکر انسان کی چنگاری بجھی نہیں۔
آج کل ملک خداداد میں مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے زندگی کی گاڑی کچھنا مشکل ہوگئی ہے لوگ بچیوں کی رخصتی اور بیٹوں کے رشتوں سے معذور ہو گئے ہیں کتنی قوم کی بیٹیاں اپنی جوانیاں کھو رہی ہیں۔ اپنی زندگیاں رشتے کے انتظار میں برباد کر رہی ہیں ان کے سامنے صرف غربت رکاوٹ ہے۔جہیز اور اخراجات رکاوٹ ہیں۔۔اگر فلاحی معاشرہ ہو، اگر اسلامی اقدار رائج ہوں تو نکاح آسان ہو جائے اور معاشرہ مایوسی اور بُرایوں سے پاک ہو جائے۔ مگر یہ سب خواب ہیں۔۔ مگرملک میں کچھ سیاسی پارٹیاں اور کچھ نجی ادارے اس کی فکر کر رہے ہیں حال ہی میں چترال میں الخدمت فاونڈیشن کی ایک احسن کاوش اجتماعی شادی کی تھی جس کو معاشرے کے سارے طبقوں نے سراہا۔۔
جماعت اسلامی اور الخدمت فاونڈیشن اس کے کریڈٹ کے مستحق ٹھہرے۔۔الخدمت فاونڈیشن کے نوجوان اور فعال صدر نوید احمد بیگ کوہکان کی کوشیشیں اور خدمات میں اللہ برکت دے کہ انھوں نے یہ کارنامہ انجام دیا۔چترال کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے پندرہ نوجوان جو اپنی شادی کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے تھے دلہے اپنے ولیمے کے اخراجات اور دلہنیں اپنی رخصتی کے سامان نہیں خرید سکتے تھے ان کی شادی کرائے۔اجتماعی شادی میں ایک ہزار افراد کے لیے ولیمے کا بندوبست کرایا دوہزار سے زیادہ لوگوں نے اس ولیمے میں شرکت کی۔ہر بیٹی کے لیے 150000روپے کے سامان خریدے گئے جس میں بیڈ، سنگار میز، واشنگ مشین،استری،پھنکا،میک اپ اور عروسی کے سامان شامل تھے۔ ہر بیٹے کے لیے شادی کے سوٹ وغیرہ شامل تھے یہ سامان دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔اس بیٹی کا قصور یہ ہے کہ وہ غریب ہے۔ لیکن اس کاوش سے واضح ہوا کہ وہ بے سہارا نہیں۔الخدمت فاونڈیشن کی طرح سہارا ان کے پاس ہے۔
نوید احمد بیگ کوہکان قوم کے درد مند بیٹے ہیں۔۔ان کی ٹیم فیصل کمال جنرل سکرٹری الخدمت فاونڈیشن،عبدالعزیز خان رضاکار اور خدمت سے سرشار نوجوان عمیر خلیل، مجاہد ضیاء الحق، سمیع الدین ریس وغیرہ وہ مخلص اور درد رکھنے والے نوجوان ہیں جو ایسے کار خیر میں تن من دھن سے شریک رہتے ہیں ان کی خدمات بھلائے نہیں جا سکتے۔
پریڈ گراونڈ میں جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر سراج لالہ جلوہ افروز تھے جماعت کے ضلعی امیر اور دوسرے اکابریں تشریف فرما تھے۔۔اچھی اور حوصلے کی ایک اور بات جو دیکھنے میں آئی وہ یہ تھی کہ پولیس کے ضلعی آفیسر ڈی پی اومحترمہ سونیہ شمروز صاحبہ اور ایس پی انوسٹیگیشن محمد خالد بھی موجودتھے۔ہمارے آفیسرز کی ایسی سوشل روایات نہیں وہ اپنے آپ کو عوام اور ہجوم سے پرے سمجھتے ہیں ان کی شناخت ان کا حکم ہوتا ہے مگر یہ آفیسرز عوام کا درد رکھنے والے ہیں۔۔عوام میں رہنا عوام میں جینا چاہتے ہیں یہ ان کی عظمت ہے ممکن ہے یہ بھی ایسے فلاحی کاموں کی آرزو رکھیں اور اپنے طور پر ان کو ممکن بنائیں کیونکہ ڈ ی پی اوصاحبہ ایک بیٹی کا درد سب سے زیادہ محسوس کرئینگی اور ایس پی صاحب کی اپنی بیٹیاں ہیں ان کے دل کو بھی دھڑکنا چاہیے۔
سراج لالہ کا خطاب ایک پیغام تھا یہ اسلام کا درس ہے اسلام درس انسانیت دیتا ہے اللہ کے نبیؐ نے اس اُمت کو ایک جسم سے تشبیہ دی۔۔ہم اگر اپنے ارد گرد دیکھنے اور محسوس کرنے کا مشق کریں تو کتنی آنسو بھری آنکھیں ہمیں تک رہی ہیں کتنے محروم و مقہور ہماری مدد کے منتظر ہیں۔۔اپنے بچوں کی خوشیوں پر کروڑوں خرچ کرتے ہوئے یہ مستنڈے سوچیں کہ کتنے اور بچے مسرتوں سے محروم ہیں تو یہ دنیا جنت بن جائے۔پشاور کے جماعت اسلامی کے ایک کارکن نے ان اخراجات میں اپنا سب سے زیادہ حصہ ڈالا ۔۔۔اس کے ساتھ چترال کے مخیر حضرات نے اس کار خیر میں بڑھ چڑ کر حصہ لیا اور یہ امید پیدا ہوگئ کہ اگر اس طرح کی کاوش ہوگی تو چترال میں بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو نیکی کے کاموں کسی سے پیچھے رہیں ۔خوش قسمت ہیں وہ جنہوں نے پندرہ جوڑوں کی مسرتیں اور دعایں اپنے نام کر دیں۔۔