قرنطینہ سینٹرز کے کچھ توجہ طلب معاملات
تحریر: ایچ ۔ رحمن
اس وقت دُنیا کو جس سنگین وبائی مرض کا سامنا ہے اللہ ہی جانتا ہے کہ یہ آزمائش کب اور کیسے ختم ہو۔ دُنیا تمام قسم کے سنگین صحت کے مسائل چھوڑ کر اس ایک وباء سے نمٹنے میں مصروف ہے۔ زندگی کا نظام درہم برہم ہے اور پوری دُنیا اس بلا کے ٹلنے کی دُعا کر رہی ہے۔
پاکستان میں جہاں پہلے ہی اوپن ھارٹ سرجیری جیسے کیسز کے لئے 6ماہ کا وقت دیا جاتا تھا اب ہر طرح کے دیگرمریضوں کو ہسپتال کے آس پاس بھٹکنے کے مواقع بھی میسر نہیں اور تمام صحت کے مسائل سے دوچار افراد تقدیر کے رحم و کرم پر ہیں۔ ابھی پاکستان میں یہ وباء اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور اگر باقی دُنیا کے کرونا گراف کا مشاہدہ کیا جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگلے چند مہینوں میں ہوسکتا ہے کہ یہ گراف بہت اُوپر جائے۔ ڈاکٹرز اور میڈیکل سٹاف اس وباء سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرنے والے خواتین و حضرات کو دو ہفتوں کے لئے قرنطینہ کرنے کے حکومتی احکامات پر عمل جاری ہے۔
چترال میں بھی کئی قرنطینہ مراکز بنائے جا چُکے ہیں اور دوسرے شہروں سے سفر کرکے لوٹنے والے تمام مسافروں کو 14 دن ان قرنطینہ مراکز میں رکھنے کے بعد گھروں کو جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یقینا اس کا مقصد یہ ہے کہ اُن مسافروں میں سے اگر کوئی ممکنہ طور پر کرونا سے متاثر ہے تو یہ وباء اس شخص سے دوسروں کو منتقل نہ ہو۔ اگر یہ دیکھیں کہ ماہرین جن احتیاطی تدابیر کی بات کرتے ہیں کیا قرنطینہ مراکز میں اُن تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جاتا ہے یا نہیں تو کچھ تشویش ناک حقائق بھی دیکھنے میں آرہے ہیں۔ مثلاََ یہ کہ ان قرنطینہ مراکز میں موجود لا تعداد مسافر ایک ہی باتھ روم استعمال کرتے ہیں جن کو بار بار سینیٹائز کرنے کا کوئی عمل سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
حال ہی میں چین میں کرونا کے پھیلاو سے متعلق ایک تحقیق یہ بھی سامنے آگئی ہے کہ سب سے زیادہ چین میں کرونا جوتوں سے منسلک ہو کر پھیلاو کا باعث بنا خاص کر میڈکل اسٹاف کے پہنے ہوئے جوتے کرونا وائرس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تیزی سے منتقل کرنے کا باعث بنے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ چترال کے قرنطینہ مراکز میں قیام و طعام کے مناسب انتظامات موجود ہیں مگر بخدا کوئی بھی مسافر ان مراکز میں بہترین قیام و طعام کے مزے لینے کے لئے نہیں ٹھہرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک ہنگامی صورت حال ہے اور سرکار نان میڈیکل اسٹاف مثلاََ پولیس، فوج، سول ایڈمنسٹریشین ان سب کو لے کر اس میڈیکل کے بحران سے نمٹنے پر مجبور ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود انسانی جانوں کی پرواہ نہ کرنے، دانستہ غفلت اور عدم دلچسپی کے بہت سے مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں۔
قرنطینہ میں موجود افراد کا ایک دوسرے سے میل میلاپ اس کورینٹائن ہونے کی اصل وجہ پر پانی پھیر دیتا ہے، قرنطینہ میں نئے آنے والے مسافروں کا استعمال کیا ہوا باتھ روم اور اُس میں موجود اشیاء اگلے ہی لمحے وہاں سے رخصت ہونے والے مسافر استعمال کرکے اپنے گھروں کے لئے نکلتے ہیں۔ قرنطینہ مراکز میں ڈیوٹی دینے والے زیادہ تر پولیس کے افراد کو ماسک تک صحیح طریقے سے پہننا کسی نے نہیں بتایا ہوا ہے اور اکثر اُن میں سے بینڈنگ وائر ناک پر چپکانے کے بجائے ماسک ہی اُلٹ کر پہن کر گھوم رہے ہیں۔
ایک مسافر جو انتہائی احتیاط سے سفر کرکے چترال پہنچا ہوا ہوتا ہے اُسے اُس کی مرضی کے خلاف باقی 4 یا 5 انجان، نامعلوم) اورکیا پتہ کرونا پر یقین ہی نہ رکھنے والے بے احتیاط) یا انتہائی متاثرہ علاقے سے آئے ہوئے افراد کے ساتھ رہنے کا پاپند بنانا کیا اُس کی جان کو خطرے میں ڈالنا نہیں ہے؟ کیا یہ عمل اگر ان پانچ لوگوں میں سے خُدا نخواستہ کوئی بھی ایک کرونا سے متاثر ہے تو اُس کے ساتھ رہنے والے باقی افراد پر بھی کرونا مسلط کرنے کے مترادف نہیں ہے؟ ایک ساتھ ایک ہی گاڑی میں سفر کرکے آنے والے مسافروں کے علاوہ لوگوں کو ایک ہی کمرے میں نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ اس کے علاوہ با اثرافراد اور اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کو اُن کی مرضی کے بہترین جگہ منتقل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ تین افراد سے زیادہ پبلک ٹرانپورٹ گاڑی میں سفر پر پابندی ہے مگر ٹریفک اہلکار چالان کرنے کے بعد اس کی بھی چھوٹ دے د یتے ہیں۔ گویا اُن کا اصل مقصد ایک ہی گاڑی میں زیادہ لوگوں کے سفر کو منع کرنا نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ جُرمانے کے رقم جمع کرنا ہے۔ اگر کسی گاڑی میں کوئی پولیس ڈیپارٹمنٹ کا کوئی بھی ایمپلائی موجود ہو تو بھلے دس افراد بھی اُس گاڑی میں موجود ہوں اُسے بغیر کچھ کہے اور چالاں کیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
یہ تمام حقائق بتانے سے میرا مقصد کسی سیاسی پارٹی ، کسی خاص فردِ واحد یا کسی ادارے پر تنقید نہیں، ممکن ہے کہ اربابِ اختیار صاحباں ان تمام مسائل کے ازالے کی کوشش کریں گے۔ وگرنہ یہی قرنطینہ مراکز کو کرونا مراکز میں بدلنے سے کوئی نہیں روک سگے گا اور سب سے زیادہ متاثر ان جگوں پر ڈیوٹی دینے والے سرکاری افراف ہی ہونگے اور سب سے زیادہ نقصان بھی اُن کا اور اُن کی خاندانوں کا ہوگا ۔ دُعا ہے کہ اللہ سبحان و تعالٰی ایسا نہ ہونے دے اور اس ناگہانی بلا سے سب کو محفوظ رکھے۔ آمین