بھونکتا ادیب اور جشن قاق لشٹ
کہتے ہیں کہ ادیب لوگ معاشرے کے نبض شناس ہوا کرتے ہیں۔ اتنے تلخ تجربات کے بعد بھی ایسا کہنا جہالت کی نشانی ہے یہاں گردن سے ذبح کرنے کا رواج ہے نبض کون دیکھتا ہے۔ ویسے ہمیں اس پر سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔چترالی ثقافت کے نام پر منعقد ہونے والے جشن قاق لشٹ میں گیت اردو، پنجابی ،پشتو اور سرائیکی ساتھ میں خٹک ڈانس ہوتو ہمیں دو چار سال بعدکسی خٹک، کسی چوہدری یا پھر کسی مالک یا میاں کے اس دعوے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے کہ اصل میں قاق لشٹ کی زمین ان کے اباؤ اجداد کی میراث ہے۔ یہ جو میں بھونک رہا ہوں میں قسم کھانے کو تیار ہوں کہ نہ تو میں ادیب ہوں اور نہ ہی دانشور۔ نہ ہی مجھے قاق لشٹ یا گرین لشٹ سے کوئی دلچسپی ہے۔ وہ ایک زمانے میں شندور میں بھی چترالی ثقافت کا بول بالا تھا جب وہاں پر چترال کی ثقافت کو سائیڈ لائن لگانے کا کام شروع ہوا۔ تو ادیب لوگ اس وقت بھی بھونکتے رہے کسی نے نہیں سنی ۔اب شندور میں چترال کا صرف ڈھول رہ گیا ہے ۔ امسال قوی امکان ہے کہ وہاں پر نرگس کی اسٹیج پرفارمنس دکھائی جائے گی۔چونکہ چترالی ادیب نرگس کو نچانے کے قابل گانے تخلیق کرنے کی صلاحیت سے یکسر عاری ہیں اس لئے بروقت ان کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ وہ جشن شندور سے اپنے آپ کو دور ہی رکھیں۔

I don’t understand why people are opposing the presentation of different culture in Chitral area. Are we afraid that our culture is so weak that it could not face other cultures? I think people should have the opportunity to see and feel other culture.
I agree that our respectable Chitrali adeebs, and funkars must have an upper hand in such type of events.