سیاحت دبئ کی – ۴

سیاحت دبئ کی - ۴شیرولی خان اسیر
آج شام اسمعیلی سنٹر سے نکلنے کے بعد عزیزاں محمد صابر اتالیق، رحمت کریم شاہ،امیر علی،نثارعلی،انور علی اور ظفر کے ساتھ دبئ مول دیکھنے گئے۔ یہ شاپنگ مال بذات خود ایک ایسا شہر لگا جس کے اوپر چمکیلی چھت ہو اور شیشے کی دیواریں ہوں۔ یوں لگ رہا تھا کہ ساری دنیا کے انسان یہاں جمع ہوگئے ہیں۔کہتے ہیں کہ 2008 میں جب اس کا افتتاح ہوا تھا یہ وسعت کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا شاپنگ مال تھا۔ مجھ جیسا بندہ اس کے بھول بھلیوں میں گم ہوجانے کا خطرہ ہے۔ یہ چار منزلہ عمارت ہے جس کے اندر ایک آبشار اور مچھلیوں کا تالاب جو شیشے کی دیواروں کے اندر قائم ہے جس میں بے شمار اقسام کی مچھلیاں موجود ہیں۔ ہاں ایک برف کا میدان بھی ہے جو شاید برف ہاکی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس شاپنگ مال کے اندر 1200 دکانیں ہیں جن میں دنیا کی ہر اعلے برانڈ کی چیز موجود ہے۔ میں چونکہ بازار قسم کی جگہوں کو اتنا پسند کرتا اس لیے ان کی تفصیل میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ مال کے گراونڈ فلور سے متصل ایک طرف جھیل ہے اور جس کے اندر دبئ فونٹین ہے جو موسیقی کی دھن پر ایسا رقصاں ہوتا ہے کہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ایک عجوبہ ہے۔ الفاظ میں اس کے رنگوں کا شمار ، ناچنے کے انداز اور نزاکتوں کی تعریف کم از کم میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس فوارے کا پانی پانج سو فٹ تک اوپر اچھلتا ہے اور سینکڑوں ناز نخرے دکھاتا ہے۔ نہیں لگتا کہ یہ کسی انسانی دماغ کی کاریگری ہے۔کسی ویڈیو میں خود نظارہ کی جیے گا۔
اس رقصان فوارے کے بالکل سامنے آپ کو دنیائے عرب کا ںلند ترین مینار یعنی برج خلیفہ آسمان کو چھوتا نظر آئیگا۔ اس کی تاریخ کافی پرانی ہے جو پہلے برج دبئ کے نام سے موسوم تھا۔ اسے دوسری مرتبہ توسیع دے کر تعمیر کیا گیا اور 2008میں مکمل ہوا۔ اس کی تکمیل کے وقت یہ دنیا کا سب سے اونچا مینار تھا۔ 2011 میں اس کا نام ابو ظہبی کے امیر خلیفہ بن شیخ زید سے منسوب کرکے برج خلیفہ رکھا گیا۔
کہتے ہیں کہ اس برج کی توسیع کے دوران دبئ کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہوا تھا تو امیر ابو ظہبی نے اس برج کی تعمیر مکمل کرائی تھی۔ان کی اس فیاضی کے اعتراف کے طور پر اس برج کانام ان سے منسوب کیا گیا۔ برج خلیفہ کی اونچائی 828 میٹر ہے اور 163 منازل پر مشتمل ہے۔ اس کی شکل تکونی ہے۔ دور سے یہ مینار ہی دکھتا ہے لیکن اندر ایک الگ دنیا آباد ہے جس میں ہوٹل، شاپنگ سنٹرز اور دفاتر قائم ہیں۔ بتایا گیا کہ اس عمارت کی اخری منزل سے ایران کا ساحلی علاقہ نظر آتا ہے۔ ہمیں اس پر چڑھنے کا موقع نہ ملا۔ اگر موقع ملتا بھی تو میں اٹھارہ بیس منزل سے اوپر قدم رکھنے کی ہمت نہیں کرستا تھا۔ برج خلیفہ کے اوپر یعنی اس کی بیرونی دیوار کے گرداگرد بجلی کے رنگوں کی وہ جادو گری کی گئ ہے کہ آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ یہاں بھی بیک گراونڈ موسیقی کی دھن پر رنگیں ناچتے ہیں تو برج ناچتا نظر آتا ہے۔ایک کہکشاں رقص کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ہمیں اپنے دوستوں سے یہ بھی علوم پڑا کہ تکمیل کے بعد اس برج کا انٹینا لگانے کی نوبت آئی تو سب انجنئیروں اور کاریگروں کی ہمت جواب دے گئی۔ ایک پختون جوان نے یہ کارنامہ انجام دیا جس کے عوض دبئ حکومت نے اسے نہ صرف شہریت دیدی بلکہ گھر بھی عطیہ کیا۔ یہ بات یاد رہے کہ دبئ میں کسی غیر ملکی کو شہریت نہیں ملتی ہے۔ افسوس یہ ہوا کہ اس بہادر پاکستانی کا نام تک کہیں ریکارڈ پر نہیں ملا۔
دل نہیں چاہ رہا تھا کہ اس دنیائے جادوگراں سے نکلیں لیکن رات گیارہ بج رہے تھے اور ہمیں کھانا بھی کھانا تھا۔ اتالیق صابر نے ہمیں سرحد دربار میں پرتکلف ڈنر دیا۔
 
]]>