چترال پبلک لائبریری نمبر۲
دیوانوں کی باتیں
شمس الحق قمر ؔ گلگت
پچھلے دنوں آپ کے مؤقر جریدے میں ملک کے نامور ماہر تعلیم، ادیب، شاعر، مفکراورکالم نگار ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی کے کالم ’’داد بیداد ‘‘کی ذیل میں ’’چترال میں پبلک لائبریری ‘‘کے موضوع سے ایک مضمون چھپا ۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑی نزاکت سے اس موضوع کو چھیڑتے ہوئے نئی نسل میں کتاب بینی کے فقدان کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں پہلی افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج سے کوئی پچاس سال قبل چترال میں ریاستی لائبریری کو تالا لگا یا گیا اور چھے ہزار کتابیں نیلام ہوئیں (اُس نیلام میں یہ بیش بہا کتابیں کن کتاب بین لوگوں نے گھٹلیوں کے دام خریدلئے وہ معلوم نہیں)
بہرحال یہ بات دلخراش اس تناظر میں ہے کہ لائبریری کو بند کرنے کے پیچھے مزموم مقاصد کار فرما تھے ورنہ کوئی ادارہ کسی مثبت وجہ کی بنیاد پر بھی بند ہو سکتا ہے۔ ریاستی دور میں لائبریری کی بندش سے یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ اُس زمانے کے لوگ کتاب بینی کے دلدادہ تھے تب ہی تو لائبریری کو بند کیا گیا تھا اور یہ امر بھی واضح ہے کہ تبدیلی وہی لوگ لاتے ہیں جو پڑھنے والے ہوں، جو معلومات رکھتے ہوں اور جو دوسروں کی رائے جان کر اُس پر تنقید کرنے پر بھی دست رس رکھتے ہوں۔ اس بات کی وضاحت کی ہر چند ضر ورت نہیں کہ ریاستی دور میں لائبریری کو بند کرنے والے لوگوں نے اپنے قلیل دورانیے پر محیط ذاتی مفاد کو آنے والے دور کی انسانی نسل کی ترقی پر کیوں ترجیح دی تھی؟ کیوں کہ اُن کو معلوم تھا کہ کتابیں ذاتی ریاستوں کی دشمن ہوا کرتی ہیں۔ آج ہمارے یہاں (چترال کے علاوہ) اگرچہ کوئی لائبیری بند نہیں اور نہ ہی کوئی ریاستی پیادے کسی کتب خانے کی کتابوں کو سستے داموں نیلام کرنے پر کسی کو مجبور کرتے ہیں لیکن کتاب بیتی کا پہلے سے زیادہ فقدان ہے۔
کتابوں کی بھر مار ہے لیکن پڑھنے والے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ۔ دراصل یہ گناہ ہماری موبائل بردار نئی نسل کا نہیں بلکہ یہ گناہ اُن کے بڑوں یعنی والدین کا ہے ۔ کتاب بینی کا ماحول گھر سے شروع ہوتا ہے۔ ہمارے گھر وں میں نامور ادیب، سائنسدان اور مفکر وں کی سستی لیکن ضخیم کتابوں کی جگہ پرہزاروں بلکہ لاکھوں روپے مالیت کے شیطانی موبائل فون پڑے ہوئے ہیں ۔ بلکہ آجکل قران شریف کی جگہ بھی موبائل قران شریف آنے لگے ہیں۔ ہم میں سے بہت سوں کو معلوم ہے اور بہت سے اس راز سے ناواقف بھی ہیں کہ موبائل یا انٹرنیٹ کے ذریعے موصول شدہ معلومات میں بہت کم معلومات مستند ہیں اور دوسری اہم بات یہ کہ انٹرنیت سے ہم صرف معلومات لیتے ہیں (صحیح غلط دونوں) اس میں سوچ اور تدبر نہیں ۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ موبائل اور انٹرنیٹ تباہی کی جانب ایک کشادہ دروازے کا نام ہے جو غلطی سے بھی جھانکے گا اندر خود بخود اندر داخل ہوگا ⁄ گی۔ یہ ایک ایسی خطر ناک وادی ہے کہ آپ جیسے ہی آگے چلو گے پیچے کے تمام دروازے بند ہوتے جائیں گے۔ یعنی کہ واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔
اب حالات یہاں تک بگڑ چکے ہیں کہ لوگ انہی موبائل اور انٹر نٹ اپلیکیشن کے ذریعے ڈاکے ڈالتے ہیں، ای میل ہیگ کرتے ہیں اور یہاں تک کہ لوگ انہی اپلیکیشن کے غلط استعمال سے خود کشیوں کا ارتکاب کرچکے ہیں ۔ ڈاکٹر فیضی صاحب کا تجزیہ دل دہلانے والا ہے انہوں نے دبے الفاظ میں کتاب بینی کے فقدان کے تمام نقصانات کا ذکر کیا ہے جو کہ آنے والی نسل کے لئے زہر ہلاہل ہے۔ ہمارے ملک پاکستان کے تمام سرکاری سکولوں میں کتب خانے موجود ہونے کے باوجود پڑھنے ولوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ میں نے بھی کئی ایک سکولوں میں جا کر ازراہ تفنن کتب خانوں کا جائزہ لیا اور دیکھا تو کہیں بھی ان کا استعمال بہتر اور بجا نہیں ہے ۔یعنی یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ ہمارے کتب خانے یتیم ہو گئے ہیں۔ مجھے ڈاکٹر صاحب کی اس بات سے حیرت ہوئی کہ چترال میں صرف ایک پرائیوٹ سکول کے علاوہ باقی سکولوںمیں لائبریری کے لئے وقت مختص نہیں کہ جہاں بچے ایک خاص نظم ضبط کے ساتھ بیٹھ کر گھنٹوں مطالعہ کر سکیں۔
اگر وقعی ایسا ہے تو ہم قوم پر ظلم کر رہے ہیں ۔ ہمارے تمام پرائیوٹ اور سرکاری سکولوں کو اس مسٔلے پر سر جوڑ کے سوچنا چاہئے۔ میرا تعلق بھی شعبہ درس و تدریس سے ہے مجھے گلگت کے ایک پرائیوٹ سکول دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس سکول کی لائبریری میں سات ہزارسے زیادہ کتابیں موجود ہیں جن میں اسلام، سائنس اور ادب کے علاوہ نصابی کتابیں دستیاب ہیں۔ ہر طالب علم ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ لائبریری کے پیریڈ سے مستفید ضرور ہوتا ⁄ ہوتی ہے اور اس پیریڈ کے دوران طلبہ اپنی مرضی سے اپنی پسند کی کتاب پڑھتے ہیں اگر اُن کی ضرورت کی کوئی ضروری کتاب لائبریری میں دستیاب نہ ہو تو اس ادارے کی انتظامیہ اس ضرورت کو اولین ترجیح سمجھتی ہے ۔ اس پیریڈ سے نہ صرف بچوں کے تعلیمی شوق کا کھوج لگا نا آسان ہوتا ہے بلکہ اُن کی دلچسپی دیکھتے ہوئے اُن کے مستقبل کے لئے بھی لائحہ عمل طے کرنا آسان ہوتا ہے ۔ اگر ہمارے تمام سکولوں (سرکاری اور غیر سرکاری)کے کتب خانوں میں مخصوص کلاسوں کا اجرا ہو جائے تو ہمارے بچوں کی تربیت میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر ہم اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تربیت کے حوالے سے بھی سنجیدہ ہیں تو ہمیں اپنے بچوں کو کتاب بینی کی طرف رغبت دلانا ہوگا اور اسکرین سے دور رکھنا ہوگا ۔یاد رہے کہ اپنے اور اپنے بچوں کے لئے کتابوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا بھی اسی تربیت کا ایک اہم حصہ ہے۔
As librarians, we know the value of our community services, and our patrons appreciate their importance as well. But in an increasingly digital world, we see the role of libraries as community and cultural centers at times undervalued, and occasionally under fire. When shrinking municipal budgets combine with the nonstop technological revolution, public library services that focus on building community face-to-face, inspiring and educating patrons about art, literature, and music, and helping patrons engage in civil discourse can seem quaint. But it is precisely those shrinking budgets and the onslaught of technologically mediated life that make public libraries’ cultural and community offerings more important than ever.
A library can be considered as a hub of knowledge. A library plays a very important role in promoting the progress of knowledge. Libraries provide the students very healthy environment, In a library atmosphere is very calm and disciplined. It helps students to keep very good concentration in their studies. Libraries are the only place where we are free from all conventions because reading is absolutely a matter of personal choice. Freedom is the keyword for the libraries. Readers are allowed to read what they like and also read the book according to their own manner. Nobody would check them or disturb them. Since everything is systematic and the atmosphere is calm, so students can gain more in less time. One can save time and energy studying in libraries. A library plays a very vital role throughout the life Particularly for the students’ library is very important, Some of the books are very rare, which are not available in the market but they can be availed from libraries. Some books like a dictionary, Encyclopedia and some other subjects are very costly. Students can get such type of books issued from libraries. Hence library is an essential part of the student’s life. They should take full advantage of the libraries available in their schools, colleges and Universities.
سجاد صاحب آپ کا خیال بجا ہے ۔ میرا مطلب یہ تھا کہ نیٹ پر چھپنے والی ہر چیز مستند نہیں ہوتی ۔ جہاں تک ریسرچ کی بات ہے تو اچھی رسرچ بھی اُس وقت تک آپ کو نہیں ملتی جب تک آپ کسی اچھی آن لائن لائبریری کے ممبر نہ ہوں اور اُس ممبر شپ کے لئے بھی کافی پیسے دینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ نے میرے مضمون کو پورا پڑھا ہے ۔ آپ کی اس محبت کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ
Public libraries and hard books will become irrelevant in near future. Now a days everything is in computer. I have access to millions (may be trillions) of research papers and books from my office. Its rubbish to say “prne wale atay me namak k barabar b nhi”. I am part of the community who is inventing future in laboratory. I can tell you, the current generation is studying much more than any other generation in known history. But old minded people having little knowledge of current research and development cannot leave their fashion statements—“kitab beeni ka shaoq khatm ho gaya ha”