بھولی بسری یادیں- ھائی سکول چترال
شیرولی خان اسیرؔ
زیر مطالعہ کتاب/ رسالہ سینٹینئیل ماڈل سکول چترال کے طلبائے قدیم اور اساتذہ کی یاداشتوں کا مجموعہ ہے جسے اولڈ بوئز ایسوسیشن چترال نے ادارہ نوائے چترال لاہور کے تعاون سے روان سال کے شروع میں شائع کیا ہے۔ یہ سکول کسی زمانے میں سٹیٹ ھائی سکول چترال کہلاتا تھا، چترال کا پہلا باضابطہ تعلیمی ادارہ ہے جس نے چترال کی عوام و خواص کے لیے تعلیم کی بنیاد فراہم کی اور چترال کو تعلیم یافتہ فرزندوں سے نوازا ۔
اس عظیم تعلیمی ادارے کے فارع التحصیل طلباء کی تنظیم “اولڈ بوا ئز ایسوسیشن” نے ایسوسیشن کے سابق صدر امیر خان میرؔ کے مطابق 1988 میں اس کی گولڈن جوبلی منائی تھی جس میں غالباً راقم الحروف نے بھی شریک ہوا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سکول بحیثیت مڈل سکول 1938 میں ترقی پائی تھی۔ محترم جناب شاہ مرحوم نے اپنے پیغام میں اس کی افتتاح کی تاریخ1941 لکھی ہے۔ جہاں تک اس کی ابتدا پرائمیری رسمی تعلیم کے لحاظ سے ہونے کا تعلق ہے وہ سن بمطابق امیر خان میرؔ صاحب 1926 ہے جب مہتر چترال اعلیٰ حضرت شجاع الملک نے اس غیر رسمی مدرسے کو رسمی تعلیم کا پرائمری سکول بنایا تھا اور 1937 میں مہتر چترال سرناصرالملک نے اس مڈل کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا۔ 1922 میں یہ غیر رسمی سکول تھا جوشاہی قلعہ چترال سے موجودہ مقام پر بجلی گھر کے لیے تعمیرشدہ عمارت میں منتقل کیا گیا تھا۔ مولانگاہ نگاہؔ نے مقدمے میں لکھا ہے،”1937 میں ہزہائی نس سر محمد ناصرالملک نے جس مڈل سکول کی بنیاد رکھی تھی۔۔۔” بقول گل مراد حسرتؔ ” جسے 1904میں ہزہائینس شجاع الملک نےاپنے اور خواص کے بچوں کی غیر رسمی تعلیم کے لیے قائم کیا تھا۔۔۔۔۔۔ ” آگے لکھتے ہیں،“
مہتر ہزہائینیس سر محمد ناصر الملک اپنی تخت نشینی کے صرف ایک سال بعد 1937 میں اس پرائمیری سکول کو مڈل کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا” ۔۔۔”عمارت مکمل ہونے پر 1939 میں آپ نے ڈائریکٹر تعلیمات صوبہ سرحد ( اب خیبر پختونخوا) جناب شاہ علم خان کو چترال بلاکر اس کا افتتاح کرایا”۔
استاد محترم فضل الدین صاحب لکھتے ہیں ” 20 ستمبر 1938 کو آج سے 77 سال پہلے ہزہائینس محمد ناصر الملک نے یہاں باقاعدہ اینگلو ورنیکلر سکول کی بنیاد رکھی”۔ محترم مرحوم سکندر حیات استاد نے لکھا ہے” 1937 میں جب سر ناصر الملک مہتر چترال نے سکول کی نئی عمارت کی تعمیر کی تو ورنیکلر مڈل کلاسز کا اجرا ہوا اور 1942 میں پہلی دفعہ یہاں کے طالب علموں نے ورنیکلر مڈل سٹینڈرڈ کا امتحان پاس کیا” پروفیسر جناب اسرارالدین کے مطابق 1944 یا 1945 میں پہلا بیج آٹھویں پاس کرچکا تھا۔ محمد عرفان عرفانؔ کے مطابق 1905 سے 1936 کے دوراں غالباً تین عشروں تک سر شجاع الملک کے قائم کردہ موجودہ سکول میں یہاں کے لڑکےلوئر مڈل تک تعلیم سے بہرہ ور ہوتے رہے۔ سکول ھذا کے اصل بانی ہزہائینس سر شجاع الملک کی وفات اور ہزہائینس سرمحمد ناصرالملک کی تخت نشینی کے دو برس بعد 1938 میں انہوں نے لوئر مڈل سکول کے احاطے کی توسیع کرکے یہاں ایک تاریخی اور عالیشان عمارت تعمیر کرکے اینگلو ورنیکلرسکول کی بنیاد رکھی۔ 7 ستمبر 1940 کو ڈائریکٹر تعلیمات صوبہ سرحد(خیبر پختونخوا) شاہ عالم کی موجودگی میں اس سکول کو باقاعدہ مڈل کا درجہ دیا گیا”۔ ان حوالوں اور بہت سے دوسرے حوالوں کے مطابق سکول کی ابتدا اور ترقی پانے کی تاریخوں میں فرق ہے۔ اس لیے سکول کی عمر کے تعین میں کنفیوژن ہے۔ درحقیقت سکول کی ابتدا کی تاریخ سے سکول ہذا کی عمر کا تعین ہونا چاہیے ۔ اس حساب سے اس وقت سینٹینئیل ماڈل سکول چترال کی عمر113 یا112سال ہے۔
باقاعدہ پرائمیری سکول بننے کے سن سے گنا جائے تو اس کی عمر91 سال بنتی ہے۔ مڈل سکول کی بنیاد رکھنے اورمڈل کلاسوں کے آغاز کی تاریخوں میں بھی کنفیوشن ہے۔ ریکارڈ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ سکول کے پرنسپل صاحب کا فرض بنتا ہے کہ ریکارڈ کو کھنگال کر درست تاریخوں کا تعئین کریں۔ ”ھائی سکول چترال ، بھولی بسری یادیں” ( ترتیب و تدوین: شہزادہ تنویر الملک تنویرؔ) یہ اس وقت تحریر ہذا کا باعث بنی ہے۔
کتاب کا ایڈیٹوریل بورڈ چترال کے مایہ ناز ادبی شخصیات جناب امیر خان میرؔ، گل مرادخان حسرتؔ، مولا نگاہ نگاہؔ، محمد عرفانؔ، عبدالولی خاموشؔ اور شہزادہ تنویرالملک تنویرؔ پر مشتمل ہے۔ اولڈ بوائز ایسوسیشن چترال نے ادارہ نوائے چترال لاہور کے تعاون سے اس کی اشاعت ممکن بنائی ہے۔ یہ سارے حضرات اور معزز ادارے صد آفرین اورخراج تحسین کے مستحق ہیں انہوں نے اس کتاب/ رسالے کی اشاعت کے ذریعے اپنے مادر علمی، اس کے بانی اور پرداخت کرنے والوں کا قرض اتارنے کی پہلی کوشش کی ہے۔ یہ کتاب ایک خوبصورت گلدستہ ہے جس میں چترال بھر کے رنگ برنگے پھول سجے ہوئے ہیں جن کا اپنا اپنا مسحورکن حسن اور اپنی اپنی نشاط انگیزخوشبو ہے۔
ایک مرتبہ ہاتھ میں آجائے تو جی چاہتا ہے کہ ہاتھ میں تھامے رکھیں اور دیکھتے اور سونگھتے رہیں۔ یہ زمانہ ماضی اور حال کا حسین ملاپ بھی ہے جس میں اس کے آولین طالبوں اور اساتذہ سے لے کر ماضی قریب کے طلباء و اساتذہ تک کی خوبصورت نگارشات موجود ہیں۔ یہ ایک تاریخ ہے جو ہمیں چترال میں تعلیمی سفر کی حقیقی روداد سناتی ہے۔ قاری اگر سکول کا طالب العلم رہ چکا ہے تو اس کی خوبصورت یادوں کو زندہ کرتی ہے اور اگر اس کا تلامذہ نہ بھی رہ چکا ہو تو اس کے علم میں خوشگوار اضافہ کرتی ہے۔ اس چھوٹی سی خوبصورت کتاب کے اندر چترال کی علمی، ثقافتی، معاشی اور معاشرتی تاریخ کا نچوڑ موجود ہے۔ ایک محقق کیلیے ہائی سکول چترال کے طلباء قدیم کی یہ یاد داشتیں مضبوط بنیاد فراہم کریں گی۔ جب میں اپنے معزز و محترم استاد الاساتذہ مرحوم محمد جناب شاہ، مرحوم اساتذہ کرام جناب وقار احمد اور سکندر حیات اور ہمنشین بزرگوں اور دوستوں کی تحریریں پڑھ رہا تھا تو میری آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے اور دل سے دعاء نکل رہی تھی کہ ” اے اللہ جل جلالہ!
میرے مرحوم اساتذہ کرام اور دوستوں کو غریق رحمت فرما اور جن کوحیات بخشی ہیں ان کولمبی عمر اور دولت ایمان سے نوازے”۔ کتاب کے اندر ہر مضمون پر تبصرہ اسی کالم میں ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے کافی وقت اورسپیس کی ضرورت ہے۔ میری رائے میں زیر نظر کتاب ہر چترالی تعلیم یافتہ مرد اور خاتون کے ہاتھ میں ہونی چاہیے اور ہر تعلیمی ادارے کی لائیبریری میں دو چار جلدیں لازمی طور پر رکھنے کا اہتمام ہونا چاہیے کیونکہ اس تاریخی مدرسے کی خدمات سے سارا چترال بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر مستفید ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ علم کی جوشمع چترال میں پہلی بار روشن کی گئی تھی وہ یہی سکول تھا۔ شمع سے شمع جلتی رہی یہاں تک کہ سارا چترال علم کے نور سے منور ہوا اور ہو رہا ہے۔ سینٹینئیل ماڈل سکول چترال نہ صرف اپنے پرانے اور نئے طلبہ کی مادر علمی ہے بلکہ ارندو سے لے کر بروغل تک کے سارے تعلیم یافتہ افراد کا محسن ہے۔
لہذا ہم سب کو اس عظیم ادارے، اس کے بانی اور پیشرو اساتذہ کرام کی عظیم خدمات کا اعتراف عملی طور پر اس کی مزید ترقی میں اپنا اپنا حصہ ڈالکر کرنا چاہیے۔ میری تجویز ہے کہ اولڈ بوائز ایسوسیشن کے فعال کارکن سالانہ یا ماہوار فنڈ جمع کرنے کی طرح ڈالیں جس میں مخصوص چندہ اور حسب توفیق عطیات شامل ہوں تاکہ یادوں کہ یہ بہار( بھولی بسری یادیں) ہرسال مہکتی رہے۔ یہ کتاب سالانہ مجلے کی صورت میں چھپتی رہے تاکہ اس عظیم علمی ادارے اور اس کے بانیوں اور پرورش کنندگان کی روحوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع ملتا رہے۔ میرا ان حضرات سے سو فیصد اتفاق ہے جنہوں نے ہائی سکول چترال کو چترال کا علی گڑھ اور اسلامیہ کالج قرار دیا ہے۔ اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ ہائی سکول چترال نےچترال والوں کے لیے علیگڑھ اور اسلامیہ کالج پشاور کا کردار ادا کیا ہے۔ کاش اس تاریخی عمارت کے سامنے کنکریٹ کا جنگل نہ اُگا ہوتا اور اس کا سابقہ منظر زندہ رہتا جو ہمارے شعور کے پردے پر آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ و تابندہ ہے۔ چترال کی اس تاریخ ساز درسگاہ میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کرنے والی اقامت گاہوں کا ذکر نہ کرنا احسان فراموشی ہوگی۔ سرکاری بورڈنگ ہاؤس اور اس کے آلو دال کا تذکرہ جا بجا آیا ہے البتہ اسماعلیہ ہوسٹل چترال کی خدمت کا ذکر صرف اسلام الدین صاحب نے کیا ہے۔ ان دو اقامتی اداروں نے بھی چترال کے دوردراز کے تشنگان علم کی پیاس بجھانے میں بڑے مددگار کا رول ادا کیا ہے جہاں غریب طلبہ کو مفت خوراک و رہائش کا انتظام تھا۔ اگر یہ ادارے نہ ہوتے تو شاید ہم میں اکثریت کو میٹرک تک کی تعلیم بھی حاصل نہ ہو پاتی۔
Respected sir, Great acknowledgement. Building buildings for various purposes is not so difficult, but achieving the goals of those institutions is a challenge for all of us to achieve. We must pay tribute to those, who thought to provide us education at our door step, however we are the once to make sure that it is meeting the goals set forth. Is it still contributing in the same zest. The very administration of this particular school has to answer to all Chitralis about its achievements. What is the present status of state of school affairs, how is teaching and learning taking place? Is it the same as is going on in other govt school (we all are well aware of the state of teaching & learning in govt schools).
Thanks, Aseer sahib for informative writing. please keep educating us.
Impressive history of our education in chitral,and thanks those intellectuals who preserve this history in written
Wonder full acknowledgement of our historical high school. Thank you very much Sir
Very good reflecton on the sweet memories of the former State High School Chitral.Thank you Aseer sahab ! keep it up.