Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

Workshop on HR, refugee rights held

اس موقع پر خطاب کرتی ہوئی ڈائریکٹر شارپ میمونہ خان نے کہا کہ گذشتہ چالیس سالوں سے پاکستان میں مہاجرین قیام پذیر ہیں ۔ لیکن تاحال مہاجرین کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی ہے ۔ صرف ایڈ ہاک بنیادوں پر اُن سے ڈیل کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ افغان مہاجرین کو ابتدائی طور پر کیمپوں تک محدود کر دیا گیا تھا ۔ لیکن 1997سے جب مہاجرین کو روزگار کیلئے کیمپوں سے باہر جانے کی اجازت دی گئی ۔ اُس کے بعد مختلف مسائل نے جنم لیا ۔ انہوں نے کہا ۔ اگر چہ افغان مہاجرین کی واپسی کے سلسلے میں عوامی سطح پر بات اُٹھ رہی ہے ۔ لیکن مہاجرین کی واپسی میں اُن کے اپنے علاقوں میں کئی مشکلات درپیش ہیں ۔ جن کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اور یہ مسائل حل کئے بغیر اُن کو جبراً واپس نہیں بھیجا جا سکتا ۔ جو بین الاقوامی اُصولوں کے خلاف ہے ، اور ایسے اقدامات سے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ اس موقع پر قاضی سجاد احمد نے چترال میں شارپ آفس کے قیام اور اُس کے کام کرنے کے طریقہ کار سے متعلق شرکاء کو آگاہ کیا ۔ جبکہ منصور خان نے انسانی حقوق کے بنیادی تصور ، انسانی حقوق اور آئین پاکستان ، بین الاقوامی قوانین اور پاکستان میں اُن پر عملدر آمد ، حقوق و فرائض اور ریاست و اُس کے اداروں کی ذمہ داریوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔ انہوں نے کہا ، کہ مہاجرین کو کسی ملک میں داخلے سے روکنا بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ غیاث گیلانی ایڈوکیٹ نے پاکستان میں مہاجرین کی انٹر نیشنل قوانین کے تحت حقوق کے تحفظ ، مہاجرین کے حقوق ،موجودہ حالات میں مہاجرین کیلئے کئے جانے والے اقدامات ، مہاجرین کارڈ وغیرہ کے بارے میں پیچیدگیوں کے حل اور قانونی معاملات پر عملدر آمد کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ ورکشاپ سے ایما فرنسس اور عمران دستگیر نے بھی خطاب کیا ۔ ورکشاپ کے دوران سوال و جواب کے سیشن میں کئی مسائل زیر بحث آئے ۔]]>

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!