دو ملاؤں میں مرغی حرام

شیرولی خان اسیرؔ
پچھلے اتوار کو رات ساڑھے آٹھ بجے پشاور سے آبیٹ آباد آرہا تھا۔ دو چار اڈوں کا چکر لگانے کے بعد ایک گاڑی ملی ۔ وہ بھی ہری پور تک کے لیے۔ ایبٹ آباد اور مانسہرہ کی کوئی گاڑی نہیں تھی۔ اس گاڑی  کے فرنٹ سیٹوں پر لوگ بیٹھے تھے۔ مجھے پچھلی سیٹ ملی۔ چونکہ ساتھ میری بچی بھی تھی جو اس گاڑی میں واحد خاتوں تھی۔ میں نے جایزہ لیا تو سامنے کی دو سیٹوں پر دو نوجوان ملا بیٹھے تھے۔ دونوں کی عمریں بیس بائیس سے زیادہ نہیں ہوگی۔ دونوں کی نئی نئی کھوسہ داڑھیاں تھیں۔ سر پر سفید براق پگڑھی، لمبے لمبے کرتے، ٹخنوں سے کافی اوپر شلوار کے پائچے، ہر لحاظ سے ایک آئیڈئیل ملاً کی تصویر سامنے تھی۔ دل خوش ہوا یہ سوچ کر کہ یہ درست ناک نقشے کے مولوی صاحباں میرے اور بچی کے لیے سامنے والی سیٹیں خالی کریں گے اور خود پیچھے جاکر بیٹھنے میں تامل نہیں کریں گے۔ یہ اچھا وقت ہے ان کو اپنی اخلاقی بلندی دکھانے کا۔ویسے زمانہ ملازمت میں میرا تجربہ کچھ حوصلہ افزا نہیں رہا تھا۔ اس قسم کے ملاؤں میں تہذیب و شرافت نام کی کوئی چیز نہیں دیکھی تھی۔ البتہ اس وقت جو منظر نامہ تھا وہ ذرا مختلف تھا۔ یہ اسلامی خدوخال سے بھرپور سواری جمعیت علماء ( فضل الرحمان) کے صدسالہ اجتماع سے فیض یاب ہوکر لوٹنے والوں میں سے نظر آرہے تھے۔  یہ تین روزہ اجتماع ازاخیل میں منعقد ہوکر آج ہی اختتام پذیر ہوگیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بہت بڑا اجتماع تھا اور سیسی قوت کا بھرپور مظاہرہ تھا۔  جس میں بیت اللہ شریف کا ایک نائب امام بھی شریک رہے تھے اور اجتماع کو مزید برکتوں سے بھر دیا تھا۔ علماء و فضلاء اور دانشوروں کا اجتماع بے ثمر نہیں ہوتا۔ اس سے کوئی نہ کوئی فیض ضرور ملتا ہے۔
 ان تمام باتوں کو مدنظر رکھنے اورغورحوض  کے بعد میں نے ان فرنٹ نشست پر برآنجمان حضرات سے مودبانہ درخواست کی، ‘ جناب مولانا صاحباں! کیا آپ یہ سیٹ میرے لیے چھوڑ سکتے ہیں کیونکہ میرے ساتھ بچی ہے؟’ یہاں قارئین کو یہ بتاتا چلوں کہ میں نے زندگی میں دو باتوں سے حتی الوسع بچنے کی کوشش کی ہے۔ ایک ہر ایرے غیرے کو ‘مولانا’ بلانا اور دوسری اپنے سے بڑے افسر کو ‘ یور اوبیڈئینٹ سرونٹ’ لکھ کر درخواست پیش کرنا۔ میرا ذاتی نظریہ یہ ہے کہ ہر کسی کو ‘مولانا’ کہنا گناہ ہے کیونکہ ہر کوئی ‘میرا آقا’ نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح ماتحت ملازم اپنے سے بڑے صاحب کا ‘تابعدار’ تو ہونا چاہیے البتہ تابعدار نوکر نہیں۔ نوکر تو ہم سب عوام  کے ہوتے ہیں کیونکہ ان کا پیسہ کھاکر ان کی خدمت کرتے ہیں۔ اپنی قسم کے پپبلک سرونٹ کے نوکر نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری زندگی میں ملاؤں اور آفسروں کی نظروں میں ‘ناپسندیدہ شخصیت’ رہا ہوں۔ اس مرتبہ ان ملاؤں بلکہ ملا بچوں کو مولانا بلانے میں میری خوشامدی انداز کا عمل دخل تھا تاکہ مجھے اور بچی کو آگے والی سیٹ مل جائے۔ ویسے از روئے روایت یا اگر قانوں نام کی کوئی چیز ہے تو فرنٹ سیٹ خواتین کا حق خیال کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں یہ تمیز بھی نہیں ہے۔ میں نے دل پر بھاری پتھر رکھ کر ‘مولانا’ پکارا تھا۔ ان میں سے ایک نے جو گاڑی میں ابھی بیٹھا نہیں تھا اپنے ساتھی سے  کچھ کھسر پھسر کی پھر میری توقع کے بالکل برعکس گویا ہوا، ‘ وہ پیچھے سیٹ ہے نا وہاں بیٹھو’ میں نے کہا شکریہ! غلطی ہوگئی۔ مجھے معاف کریں’  میں پچھلی نشت پر بیٹھ گیا اور بچی کو ساتھ بٹھا لیا۔
 میرا ذاتی تجربے کے مطابق جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے لوگ ایسے معاملات میں بڑا مہذب رویہ رکھتے ہیں۔ ان ملاؤں کا تعلق جماعت اسلامی سے ہوتا تو وہ میری گزارش سے پہلے ہی سیٹ خالی کردیتے۔ بدقسمتی سے یہ ‘علماء’ کے گروہ سے تھے اس لیے ان سے مہذب رویے کی امید رکھنا میری حماقت تھی۔ دو گنٹھے کے اس سفر کے دوران میں یہ سوچتا رہا کہ اگر ہمارے دینی مدرسوں میں اس قسم کے علماء پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو بیچارے اسلام کا تو خدا ہی حافظ ہے۔ اگر جمیعت علماء کے صد سالہ اجتماع کا حاصل اس قسم کے سامعین و ناظرین سے خطاب تھا تو اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے؟
]]>