یونین کونسل یارخون کا رقبہ ضلع پشاور سے دو گنا بڑا ہے ۔ ایم این اے شہزادہ افتخار |
ضلع کیلئے رقبے کو بنیاد بنانا ہوگا۔ ایم پی اے سلیم خان |
اپنی موجودہ مدت کے آخری سال ضلع بحال کروانے میں کامیاب ہوجاؤں گا۔ ایم پی اے سردار حسین |
وزیراعظم کے دورہ چترال سے پی ٹی آئی دباؤ میں ہے، صرف ضلع اُن کو بچاسکتا ہے۔ سابق ایم پی اے غلام محمد |
بعض لوگ نہیں چاہتے کہ ضلع کا اعلان موجودہ حکومت کرے۔ رحمت غازی خان |
(اعجاز احمد۔ اسلام آباد)

ضلع چترال ایک وسیع رقبے کا حامل ہے جہاں آبادی صوبے کے دیگر اضلاع کی نسبت بہت کم ہے۔ ضلع چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کی مہم اگرچہ زور وشور سے نہیں چل رہی لیکن گاہے بگاہے منتخب ممبران اور کبھی کبھار سماجی رہنماؤں کی جانب سے مطالبہ سامنے آتا رہتاہے۔ سن 1969ء تک ضلع چترال انتظامی طورپر دو یونٹوں پر مشتمل تھا، لیکن بحیثیت ضلع، پاکستان میں شمولیت کے بعد مالاکنڈ ڈویژن کی تینوں ریاستوں یعنی سوات، دیر اور چترال کو ایک ایک یونٹ کے طورپر شامل کیاگیا، جس میں بعد آزاں دیر اور سوات کو مزید اضلاع میں تقسیم کیا گیا۔ آج دیر دو جبکہ سوات تین اضلاع پر مشتمل ہے جبکہ چترال کےانتظامی حد بندیوں میں تبدیلی نہیں کی جاسکی جسکی سب سے بڑی وجہ کم آبادی ہے۔
سوات اور دیر کی مزید تقسیم میں آبادی میں اضافہ کو بنیاد بنایا گیا ہے لیکن چترال کے نمائندگان نے چترال کے لئے رقبے کو بنیاد بنانے کا مطالبہ نہیں منواسکے ۔ آج چترال سولہ یونین کونسلز پر مشتمل صوبے کا وسیع ترین ضلع ہے۔ بالائی چترال کا رقبہ 8650 مربع کلومیٹر ہے جو 10 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ آبادی کا تخمینہ دولاکھ نفوس کا لگایا گیاہے لیکن بعض کے نزدیک اپر چترال کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ اٹھارہ سال سےمردم شماری نہیں ہوئی لہٰذا اس بابت وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔
اضلاع بنانا خالصتاً ایک انتظامی معاملہ ہے یعنی کسی ضلعے کے ڈپٹی کمشنر کو ایسا محسوس ہو کہ بڑا رقبہ یا آبادی میں اضافہ کی وجہ سے کسی علاقے کا مکمل احاطہ کرنا مشکل ہورہاہے تو مذکورہ علاقے کو مزید چھوٹے یونٹس میں تبدیل کیا جاسکتاہے۔ اضلاع بنانے کیلئے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہوتی، متعلقہ صوبے کا ایڈمنسٹریٹر یعنی وزیراعلیٰ اپنی صوابدید سے ضلع کے قیام کا اعلان کرتاہے۔ ریسرچ کے مطابق نئے ضلع کے قیام پر تقریباً چار ارب روپے کے اخراجات آتے ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے جس نے ضلع چترال کی سابقہ حیثیت بحال کرنے میں ایک رکاوٹ ہے۔
بالائی چترال کو ضلع کا درجہ دلانے کی مہم نہایت نیم دلانہ ہے۔ ایسا لگتاہے کہ یہ مطالبہ عوام کا نہیں بلکہ چند سیاسی لوگوں کا مشغلہ ہے۔ جس انداز میں لواری ٹنل کی حمایت میں مہم چلائی گئی تھی وہ مہم ضلع چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کے حوالے سے نظر نہیں آرہی۔
چونکہ حالیہ دنوں بالائی چترال کو ضلع بنانے کی مہم نے پھر سے سر اٹھایا ہے، اس حوالے سے چترال سے تعلق رکھنے والے اہم رہنماؤں کی آرا ءپیش خدمت ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو مذکورہ مہم کس حد تک سنجیدگی سے چلائی جارہی ہے۔ رہنماؤں سے کئے جانے والے سوالات میں یہ شامل تھے: کیا بالائی چترال کو ضلع کا درجہ ملنا چاہئے، کیا یہ عوامی مطالبہ ہے یا سیاسی؟ آپ نے اب تک اس حوالے سے کیا کیا ہے؟ نئے ضلع کے نقصانات یا فوائد کا کیا تناسب ہوگا؟
اس موضوع پر اظہارِ خیال کیلئے وقت دینے پر سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اُن کی رائے اُن ہی کی زبانی آپ تک پہنچائی جاتی ہے
شہزادہ افتخارالدین (ایم این اے)۔ اپر چترال کو ضلع بنانے کا کوئی نقصان ہی نہیں ہے، فائدہ ہی فائدہ ہے۔ چترال اولین دور سے دو اضلاع پر مشتمل تھا، خود میرے والد بزرگوار (شہزادہ محی الدین) اپر چترال کے ڈپٹی کمشنر (اُس زمانے میں وزیراعظم) تھے۔ اب بالائی چترال کو ضلع بنانے کیلئے نہیں بلکہ چترال کے دو اضلاع والی سابقہ حیثیت بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بے شک عوامی مطالبہ ہے کیونکہ چترال کا ڈپٹی کمشنر (میں موجودہ ڈی سی او کی بات نہیں کررہا، وہ اپنا کام بخوبی سرانجام دے رہے ہیں) بالائی چترال کا دورہ نہیں کرپاتا۔ سرکاری مشینری کی ساری توجہ اُن علاقوں پر ہوتی ہے جہاں پرڈسٹرکٹ افسران کی نظر ہو، جبکہ ڈسٹرکٹ افسران کے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ چترال میں تورکہو، موڑکہووغیرہ جیسے نام کے دیہات بھی موجود ہیں۔ شندور جیسے ایونٹ پر افسران اپر چترال کا رُخ کرتے ہیں بقیہ دنوں میں نہیں۔ دیکھیں ضلع پشاور کا رقبہ یونین کونسل یارخون سے رقبے میں چھوٹا ہے، چترال کو ایک ضلع پر محدود رکھنا زیادتی ہے۔ چونکہ یہ ایک صوبائی معاملہ ہے لہذا میں اپنے چترالی نمائندوں کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار ہی کرسکتاہوں۔ میں نے ایک بار چترالی منتخب نمائندوں سے اپیل بھی کرلی تھی کہ صوبائی حکومت اگر چترال پر توجہ نہیں دیتی تو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر اور یکسُو ہوکر مہم چلائی جائے، صوبائی حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے اور اُس میں ،میں ہر قدم اُن کے ساتھ رہوں گا، وہ مشترکہ پریس کانفرنس کی شکل میں ہو، کوئی اور طریقہ کار اختیار کیا جائے میں اُنکے ساتھ ہوں، ہمیں مل کر اپنے مطالبات صوبائی حکومت تک پہنچانے چاہئے۔ لیکن میری تجاویز کو کسی نے درخوراعتنا نہیں سمجھا۔ ابھی تک ہمارے ایم پی ایز نے اس حوالے سے کوئی منظم مہم نہیں چلائی ہے، ضلع کا درجہ کوئی اپر چترال کو دے سکتاہے تو وہ وزیراعلیٰ ہی ہیں اور وزیراعلیٰ کو ہمارے ایم پی ایز تحریک دے سکتے ہیں۔ میں ایک بار پھر پیشکش کرتاہوں کہ چترال کے حقوق کیلئے مشترکہ کوششیں کریں، پلان ترتیب دیں ، مہم چلائیں میں ہروقت اُنکے ساتھ ہوں، کسی جگہ انہیں مایوس نہیں کروں گا۔
سلیم خان (ایم پی اے، زیریں چترال)۔ چترال کو بلحاظ رقبہ کنٹرول کرنا ایک ڈپٹی کمشنر کے بس کی بات نہیں، اپر چترال کو ضلع کا درجہ دینا وقت کی ضرورت ہے۔ بعض لوگ چترال کے اندر ہی اسکی مخالفت کرتے ہیں، چترال کے قائیدین ایک پیچ پر نہیں ہیں اس لئے ہمارے مطالبات میں جان نہیں ہوتی، دوسری بات یہ کہ عوام بھی اپنا کردار ادا نہیں کرتے۔ سردار حسین نے بونی میں وزیراعلیٰ کی موجودگی میں ضلع کا مطالبہ کیا تو عوام نے تالیاں بجائیں لیکن وزیراعلیٰ نے اٹھ کر اس مطالبے کو رد کردیا تو عوام نے بُرا نہیں منایا، احتجاج ہونا چاہئے تھا نہیں ہوا۔ ہم بینک کے قرضہ جات معاف کرانے کیلئے ہڑتال اور سڑکیں بلاک کرتے ہیں لیکن کبھی ہم ضلع کے مطالبے کیلئے ادھا کلومیٹر واک بھی نہیں کی۔ اس سے یہ تاثر ملتاہے کہ اس مطالبے کیساتھ عوام کی کوئی دلچسپی نہیں صرف سیاست چمکائی جارہی ہے۔ ہم اپنی کوششیں کررہے ہیں، موجودہ صوبائی حکومت کی ترجیحات بالکل الگ ہیں، پھر بھی ہم پُرامید ہیں کہ چترال کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے میں ہم کامیاب ہوں گے۔ عوام کو ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے، انہیں بتادینا چاہئے کہ کونسے مطالبات کیلئے کس حد تک جانا چاہئے۔ میں اپر چترال کیلئے ہمیشہ حاضر ہوں جب بھی موقع ملا ہے میں نے کبھی یہ نہیں دیکھا ہے کہ میرا حلقہ کہاں پڑتاہے، بلکہ ہمیشہ میری ترجیح پورا چترال ہی ہے۔ خالصتاً عوامی مطالبہ ہے بس عوام کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس کا عوام کو کسی قسم کا نقصان ہوگا۔ ملازمتیں ملیں گی، زیریں چترال میں مسابقت تھوڑی کم ہوگی اور اپر چترال میں خوشحالی آئے گی۔
حاجی غلام محمد (سابق ایم پی اے۔اپر چترال)۔ اپر چترال ضلع کی بحالی کیلئے مجھ سے زیادہ شائد کسی نے کوششیں کی ہو، میں نے وزیراعلیٰ حیدر ہوتی کو تقریباً منوالیا تھا لیکن مختلف مسائل آڑے آنے کی وجہ سے وقت نکل گیا ،ایک سال موجودہ اسمبلی میں بھی رہا، میں نے پرویز خٹک کو رقبے کی بنیاد پر چترال کو دو اضلاع میں بدلنے پر کافی حد تک راضی کرلیاتھا، انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ کسی مناسب موقع پر اس کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔ اب سردار حسین صاحب نے کمان سنبھال لی ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ وہ اپوزیشن ممبر کی حیثیت میں صوبائی حکومت کو اس فیصلے کیلئے تیار کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ البتہ میں یہ کہہ سکتاہوں کہ وزیراعظم کے حالیہ دورہ چترال سے پی ٹی آئی چترال میں بہت دباؤ میں ہے، پارٹی کے وجود کو خطرات درپیش ہیں اور پی ٹی آئی چترال کے لوگ بہت پریشان ہیں، وہ اگر پرویز خٹک کو بالائی چترال ضلع کی بحالی کیلئے راضی کرلیں تو ممکن ہے۔ لیکن یہ کریڈٹ سردار حسین کو نہیں ملے گا۔ پی ٹی آئی والے یہ کریڈٹ کسی اور کو لینے نہیں دیں گے۔ دیکھیں چترال کے بعض علاقوں سے لوگ ڈھائی سو کلومیٹر چل کر ڈی سی آفس پہنچتے ہیں، لوگوں کو بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ دو دن سفر کرکے ڈسٹرکٹ ہسپتال پہنچتے ہیں، غریبوں کی جیب پر بہت دباؤ ہے۔ دوسری طرف زیریں چترال کے لوگ بھی زیادتی پر اتر آتے ہیں، کوئی حکومتی سربراہ، پارٹی لیڈر، عسکری قیادت یعنی کوئی بھی چترال کا دورہ کرے اُسے چترال سے آگے نہیں لایا جاتا۔ وہ چترال شہر کا دورہ کرکے واپس چلا جاتاہے۔ اس سے ہمارے گاؤں اور دیہات مناسب سہولیات سے بھی محروم ہیں کیونکہ یہ کسی کی نظروں میں نہیں آتے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ ہماری طرف سے سنجیدہ کوششیں نہیں کی جاتیں۔ میں نے حال ہی میں چترال میں ایک اجلاس میں شرکت کی جو خالصتاً اس موضوع پر تھا۔ ہم ہر فورم پر اپنی آواز اٹھاتے ہیں۔ ہم دعا کریں گے کہ بے شک اس کا کریڈٹ کوئی بھی لے ، لیکن ہمارا ضلع بحال ہو، تاکہ ہمارے لوگوں کی مشکلات میں کمی آئے۔
رحمت غازی خان (ممبر ڈسٹرکٹ کونسل، چترال)۔ مجھے امید ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپر چترال کی سابقہ حیثیت بحال کرے گی، اس کیلئے میں شروع دن سے کوشاں ہوں۔ میں نے پارٹی چیئرمین عمران خان سے چترالی نوجوانوں کی موجودگی میں کہا تھا کہ چترال کے لوگوں کے دل جیتنے ہیں تو ڈسٹرکٹ بحال کیا جائے، چترالی کسی کا کردار نہیں بھولتے ، احسان یاد رکھتے ہیں۔ میں نے انہیں بتادیا کہ بھٹو نے یہاں عشر کا نظام ختم کرایا اور پیپلز پارٹی اسی وجہ سے آج بھی چترال میں ووٹ لے رہی ہے، پرویز مشرف نے لواری ٹنل پر کام شروع کرایا آج بھی چترالیوں کے دلوں پہ راج کررہاہے اور ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم چترالیوں کی بہت بڑی مشکل حل کریں جو ضلع کی انتظامی تقسیم کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے کہ وزیراعظم کا دورہ چترال سے پارٹی کو کسی دباؤ کا سامنا نہیں ہے، وہ سابقہ منصوبوں کا اعلان دوبارہ کررہے تھے اور ہماری پارٹی اتنی بھی کمزور نہیں کہ چند منصوبوں کے محض اعلانات سے دباؤ میں آئے گی، پیپلز پارٹی کے ایم پی ایز چاہتے ہیں کہ موجودہ دور میں اپر چترال کا ضلع بحال نہ ہو، کیونکہ پھر انکے لئے سیاست کیلئے کچھ نہیں بچتا۔ مجھ سے لوگ بہت توقعات رکھتے ہیں، ٹھیک ہے پارٹی میں اللہ کے فضل سے میری بہت عزت اور پہچان ہے، وزیراعلیٰ سے اچھی واقفیت ہے لیکن میں خود کو اتنا نہیں سمجھتا جتنا لوگ مجھے سمجھتے ہیں البتہ اپنی کوششیں کرتارہوں گا، اور لوگوں کی توقعات پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کرتارہوں گا۔ میڈیا کو ہمارا ساتھ دینا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر مہم چلائیں، سوشل میڈیا کو ایک دوسرے کے خلاف پراپیگنڈے کیلئے نہیں بلکہ عوامی مسائل حل کرنے اور اپنے نمائندوں کی ہاں میں ہاں ملاکر حکومتوں پر دباؤ بڑھانے کیلئے استعمال کریں۔ میں خاموش نہیں رہوں گا میں پہلے پہل ضوابط کے تحت صوبائی حکومت کو باور کرانے کی کوشش کروں گا لیکن اگر مجھے ایسا لگا کہ میرے مطالبات منظور نہیں ہونے والے ہیں تو میدان میں نکلوں گا ، نوجوانوں کو ساتھ ملاوں گا اور طاقت کے بل پر ڈسٹرکٹ حاصل کروں گا۔ البتہ امید کرتاہوں ایسی نوبت نہیں آئے گی، میری آواز اور میرے مطالبات ہر کونے تک پہنچ چکے ہیں اب ڈسٹرکٹ کی منظوری ہی میری منزل ہے۔
شمس الرحمٰن (سابق ناظم تحصیل مستوج)۔ اپر چترال کا ضلع بننا ہمارا جائز حق ہے اور اسے جلد ازجلد بننا چاہئے۔ ہم نے بہت مشکلات سہہ لیں، لوگوں کے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے۔ پندرہ ہزارروپے کا چیک لینے کیلئے لوگ دو سو کلومیٹر چل کر چترال پہنچتے ہیں، خزانے میں کوئی اہلکار موجود نہ ہو تو دو دو تین تین دن ہوٹلوں میں رہنا پڑتاہے اب اس ظلم و زیادتی کا مداوا کیا ہے ؟میں اپنی پارٹی کے حوالے سے مطمئن ہوں کہ ہم نے پہلے بھی کوششیں کیں اور آئیندہ بھی کریں گے۔ ۔ ڈسٹرکٹ بن گیا تو کروڑوں کا فنڈ سالانہ یہاں استعمال ہوگا، اس وقت ہمارا علاقہ ضلعی انتظامیہ کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ الگ ضلع کی صورت میں ہمارے غیر معروف علاقے بھی نظر میں آجائیں گے اور لوگ خوشحال ہوں گے۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ عوام اس مطالبے میں دلچسپی نہیں رکھتے، ہم نے اس کیلئے جیلیں کاٹی ہیں۔ یہ درست ہے کہ کچھ لوگ اخلاص کیساتھ کوششیں نہیں کرتے۔ اُن سے گلہ نہیں ، کیونکہ جب آپ کو 100 کلومیٹر پر حکومت کا موقع ملتاہے تو آپ اپنا پایہ تخت محدود کرکے 50 کلومیٹر کیوں کریں گے؟ میں اپنے نمائندگان سے جن کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو اپیل کروں گا کہ کم ازکم اس موضوع پر یکجا ہوکر کوششیں کی جائیں، ہم سیاست کرتے رہیں گے لیکن عوام کی مشکلات میں کمی کا سب سے پہلے سوچنا چاہئے۔
پرویز لال (ممبر ویلج کونسل بونی۔2)۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام اپنا کردار ادا نہیں کرتے وہ اپنی ذمہ داری نبھانے سے کتراتے ہیں۔ کس نمائندے نے عوام سے کہا کہ آؤ ہمارے ساتھ ضلع کی بحالی کیلئے ہڑتالیں کرو اور عوام نے ان کی آواز پر لبیک نہیں کہا۔ ایسی بات نہیں ہے ۔ ہمارے لیڈران کو آگے آنا چاہئے، حکمت عملی ترتیب دیکر عوام کی رہنمائی کرنی چاہئے پھر مہم بھی چلے گی اور کامیاب بھی ہوگی۔ ہم اس مقصد کیلئے کوئی موقع فروگزاشت نہیں کرتے۔ ہمیں اندازہ ہے کہ ہمارے ووٹرز کو کن مشکلات کا سامنا ہے۔ ہم حقوق تحصیل مستوج کے پلیٹ فارم سے چھوٹے سے بڑے ہر مسئلے پر آواز اٹھائی ہے، اور مسلسل اٹھارہے ہیں۔ ہمیں گلہ ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے اپنا کام نہیں کرتے۔ دیکھیں اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ محض صوبائی حکومت ہی کا اختیار ہے کہ وہ نئے اضلاع بنائے۔ یہ ہمارے لئے موت وزیست کا مسئلہ ہے اسے ترجیحی بنیاد پر حل کیا جانا لازمی ہے۔ ابھی تک کوئی منظم مہم ہمارے نمائندوں نے نہیں چلائی ہے۔ ہمیں اس حوالے نہایت فعال ہونے کی ضرورت ہے۔
نوٹ۔ اس موضوع پر زیادہ سے زیادہ رہنماؤں کے خیالات جاننے کیلئے کافی کوششوں کے باوجود کئی سے رابطہ ممکن نہ ہوسکا۔ ایم پی اے سردار حسین کیلئے سوشل میڈیا تک کو استعمال کیا، سوالات چھوڑے ،پراُنکی طرف سےفون نہیں اٹھایا گیا، البتہ اُنکے ایک قریبی ذریعے نے جواب دینے کی کوشش کی، اُس کے جواب سے صرف یہی لائن شامل کرتا ہوں “سردار حسین کو پوری طرح امید ہے کہ موجودہ اسمبلی اپنے آخری سال اپر چترال کا ضلع بحال کرائے گی”۔ اس خوش گمانی کی وجوہات کیا ہیں یہ جاننے کیلئے ایم پی اے دستیاب نہیں تھے۔ محترمہ فوزیہ صاحبہ خلاف توقع غائب رہیں۔ اُن سے رابط کرنا اس سے قبل کوئی مشکل نہیں تھا، متعلقہ پارٹی سے تعلق رکھنے والی واحد ایم پی اے ہونے کی وجہ سے وہ شائد ہمیں “اندر” کی کوئی بات بتادیتی، اُنکی رائے اپنے قارئین تک نہ پہنچاسکنے کا افسوس رہے گا ۔ ضلع ناظم مغفرت شاہ کی رائے نہایت ضروری تھی، اُن سے رابطے کی کوششیں بھی رائیگان گئیں۔ فوزیہ بی بی اور مغفرت شاہ پہلی بار وقت نہیں دے سکے۔ ڈسٹرکٹ بار کے غلام حضرت انقلابی سوشل میڈیا پر بالائی چترال کے ضلع کی بحالی کیلئے کافی ایکٹیو ہیں، ہماری بدقسمتی کہ اُن کے جذبات بھی نہیں جان سکے۔]]>
Related