میرے اساتذہ
شیرولی خان اسیر
سٹیٹ مڈل سکول مستوج میں جن اساتذہ سے پڑھنے کا شرف پایا ان میں حضرت اللہ جان صاحب کا نام سر فہرست ہے۔ ان کا مختصر تذکرہ “مہمیز” کے عنوان کے ذیل میں ہو چکا ہے۔ ان کی انتظامی صلاحیت اور پر خلوص محنت کا ذکر رہ گیا ہوگا۔ اس عمر میں ہم صرف اتنا جانتے تھے کہ حضرت اللہ جاں صاحب بہت کم چھٹی کیا کرتے۔ صبح کی اسمبلی کے لیےسرغوز سے ( اپنے سسرال میں رہائش رکھتے تھے) پیدل پہنچ جایا کرتے اور اپنے پریڈ کو کبھی نہ چھوڑتے۔
پوری دلچسپی اور ایمانداری کے ساتھ ہمیں پڑھایا کرتے اور ہمارے حساب سے قابل تریں استاد تھے۔ اس وقت تو ان کی جوانی تھی۔ ہمیشہ کھڑے کھڑے پڑھایا کرتے۔ کبھی کبھی ان کو غصہ آجاتا تو تھپڑ کا استعمال کیا کرتے اور ہر تھپڑ کے ساتھ دائیں ان کی دایاں پیر زمین سے اٹھ جایا کرتے۔ مجھے تو کبھی ان کی مار نہیں پڑی البتہ میرے ہم جماعت ان کی تھپڑ سے نالان تھے۔ 1989اور 1990 میں جب میں گورنمنٹ ہائی سکول ریشن کا ہیڈ ماسٹر تھا تو استاد موصوف کا تبادلہ بھی ایس ای ٹی پوسٹ پر اسی سکول میں ہوئی۔ ہم دونوں کو روزانہ تیس پینتیس کلومیٹر سفر کرنا پڑتا تھا۔ میں چارن میں رہائش پذیر تھا اور استاد محترم اپنے گھر واقع کوراغ سے آتے جاتے تھے۔ استاد صاحب کی عمر پچاس سے اوپر ہوچکی تھی۔
میں نے ان کو گھر بٹھانے کی جتنی کوشش کی ان کو نہ بٹھا سکا۔ وہ اپنی ڈیوٹی باقاعدگی کے ساتھ انجام دیتے رہے۔ دوسری بات یہ کہ استاد صاحب اس عمر میں بھی کلاس میں کھڑے کھڑے پڑھایا کرتے تھے۔ میں نے ان کو بیٹھ کر پڑھاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ یہی اوصاف تو ان اساتذہ کرام کو عظیم ترین مقام دیتی تھیں۔ نور بہار شاہ صاحب مرحوم ہمیں ڈرل سکھایا کرتے تھے۔ چترال سکاؤٹ سے پنشن یافتہ تھے۔ ہم ان کے پریڈ کے لیے شوق سے جایا کرتے کیونکہ وہ زندہ دل ، ہنس مکھ اور مشفق استاد تھے۔ اپنے پریڈ میں پی ٹی سکھانے کے ساتھ ساتھ ہمیں دلچسپ کھیلوں میں مصروف رکھا کرتے اورآزادی بھی دیا کرتے جس میں ہم کھل کر بچگانہ حرکتیں کیا کرتے تھے۔ ان کے پریڈ میں کلاس کی بوریت ختم ہو جایا کرتی ۔
اس لیے نوربہار شاہ صاحب ہمارے مقبول ترین اساتذہ میں سے تھے۔ ہم ان کے ساتھ بے تکلف گفتگو کرسکتے تھے۔ انہوں نے ہمیں پی ٹی میں اتنا ٹرین کیا تھا کہ جب ہم چترال کے ہائی سکول میں حاکم خان مرحوم کے شاگرد بنے تو ان کے سخت پیمانے پر پورا اترنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی تھی۔ نور بہار شاہ صاحب کا تعلق مستوج ڑاکھپ کے رضاخیل خاندان سے تھا۔ ان کی اچھی یادیں ہمیشہ دل میں زندہ و تابندہ رہیں گی۔ تریچ موڑکھو کےمولانا کفایت اللہ صاحب بھی ہمارے پسندیدہ معلم تھے۔ اسلامیات پڑھانے والے اساتذہ عام طور پر سنجیدہ طبیعت رکھتے تھے۔ ان کے پریڈ میں بوریت سی ہوا کرتی۔ لیکن ہمارے محترم کفایت اللہ صاحب کلاس میں خوش گوار ماحول پیدا کیا کرتے۔ طلبا کے ساتھ مزاحیہ گفتگو کرکے ہنسایا بھی کرتے۔ ان کی کلاس میں بھی ہم کھل کر بیٹھ سکتے تھے۔ ان سے آزادانہ سوال کرسکتے تھے۔ ان کے مضمون یعنی اسلامیات میں نالائق ترین لڑکا بھی پاس ہوجایا کرتا۔ بہت محنتی اور ایماندار استاد تھے۔ میں ان کے پسندیدہ شاگردوں میں سے تھا۔ سن اسی کی دھائی میں جب میں ہائی سکول بونی کا ہیڈ ماسٹر تھا تو مفتی کفایت اللہ صاحب کا تبادلہ میرے سکول میں ہوا۔
جب وہ چارج لینے آگئے تو مجھے اس بات کا بے حد دکھ ہوا کہ اتنے سینئر اور کبیر سن استاد کا تبادلہ ان کے گھر سے اتنے دور کردیا گیا تھا جو اس پیدل سفر کے زمانے میں دو دن کی مسافت پرتھی۔ اس قسم کی بے انصافیاں محکمہ تعلیم میں عام تھیں۔ میں نے ان کو چارج دینے کے بعد کہا، ” استاد محترم! آپ کا اس عمرمیں اتنا دور تبادلہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ میں آپ کو واپس تریچ میں پوسٹنگ تو نہیں کراسکتا البتہ آپ کو کھلی چھٹی دے سکتا ہوں۔ آپ کے مفوضہ مضامین میں خود پڑھایا کروں گا۔ آپ آرام کے ساتھ گھر میں بیٹھیں۔ آپ کی تنخواہ گھر پہنچتی رہے گی۔ مفتی صاحب خوش ہوگئے اور دعائیں دیں لیکن گھر بیٹھ کر تنخواہ لینا انہیں گوارا نہ ہوا۔ میں نے زبردستی ان کو گھر بھیج دیا یہ کہتے ہوئے کہ آپ کی ڈیوٹی میں اپنے ذمے لیتا ہوں۔
کوئی چوری چھپی چھٹی نہیں دے رہا۔ آپ کی غیر حاضری کے لیے بالائی آفسروں کے سامنے میں خود جواب دہ ہوں”کچھ عرصے بعد واپس آگئے اور کہنے لگے، ” بیٹا! مجھے ریٹائر کردو”۔ میں نے جتنا منع کیا وہ نہیں مانے اور پنشن لے کر گھر بیٹھ گئے۔ بارینس کے محترم نورالامین صاحب حضرت اللہ جان صاحب کی جگہہ ہمارے ہیڈ ماسٹر ہوے تھے۔ ان سے بھی ہم بہت ڈرتے تھے۔ سزا دینے میں وہ ذرا سخت تھے البتہ بعض اوقات وہ خوش گوار موڈ میں بھی ہوا کرتے اور مزاق چھیڑ دیا کرتے۔
نہایت محنتی استاد تھے۔ ہمیں ساتوین اور آٹھویں میں انگریزی پڑھایا کرتے۔ چونکہ ہمارے سکول میں زوندرےاور رضاخیل قوم کے لڑکوں کی بڑی تعداد پڑھتی تھی۔ یہ “لال” لوگوں کے بچے عموماً نالائق ہوتے تھے۔ گھر کا کام کرنے میں غفلت برتتے۔ اس لیے نورالامین صاحب ان کو سنانے کے لیے کہا کرتے، ” پدر من سلطان بود” کو سکول سے باہر چھوڑ کے آیا کرو۔ اس سے تمہیں کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ فارسی کا یہ مقولہ ان کا پسندیدہ جملہ تھا۔ جب بھی وہ کسی زوندرے ، رضا یا خوشوقتے لال کے بیٹے کی سرزنش کرتے تو یہ جملہ بول دیا کرتے۔ ایک دفعہ وہ ہم سے انگریزی افعال پوچھ رہے تھے۔ کھوژ کے حسین نادر ( ریٹائرڈ انسپکٹر پولیس) نے کسی بے قاعدہ فعل کو عام قاعدے کے مطابق پریزنٹ، پاسٹ اور پاسٹ پارٹسیبل بنانے کی کوشش کی تو استاد صاحب کو غصہ چڑھا اور چھڑھی کی نوک سے حسین نادر کوٹھوکتے ہوئے کہا، ”کھوژ، کھیژ کھاژین، کھوژ کھیژ کھاژین”۔ ہم اپنی ہنسی نہ روک سکے۔ شکر ہے کہ ہمیں سزا نہیں دی بلکہ خود بھی ہنس پڑے۔
ںورالامیں صاحب بہت کم چھٹی کیا کرتے۔ پیدل سفر کے زمانے میں وہ سرما اور گرما کی تعطیلات یا رخصت سے واپسی پر برنس سے وقت پر ڈیوٹی کیلیے پہنچا کرتے۔ اپنے پریڈ کے لیے لیٹ کبھی نہیں ہوا کرتے۔ تفریح میں ہمارے ساتھ ملکر والی بال بھی کھیلا کرتے۔البتہ ان کی ٹیم میں کھیلنے سے سب گریزاں تھے کیونکہ بال چھوٹ جانے کی صورت میں اس ساتھی کو بہت کچھ سننا پڑتا تھا۔ قاضی احمدالدین صاحب ساتویں اور آٹھویں میں ہمیں اردو پڑھایا کرتے تھے۔ گرامر کاپی پر لکھواتے اور اگلے دن فرداً فرداً پوچھتے۔ یاد نہ کرنے والے کی خوب شامت آجاتی۔
ان کا طریقہ سزا خطرناک ہوا کرتا۔ وہ ٹخنوں، گٹھنوں اور کہنیوں کو چھڑی کا نشانہ بناتے، جس سے سزا پانے والا اچھلتا کودتا رہتا۔ میں بھی ایک دفعہ زیر عتاب آیا تھا۔ جو آج تک مجھے یاد ہے۔ وہ سزا مستوج کے سکول میں میری پہلی اور آخری پٹائی تھی۔ میں ہمیشہ استاد کی ہدایت کے مطابق گھر کا کام کرنےاور “رٹا” لگانے میں کمزوری کبھی نہیں دکھائی۔ جس دن میں نے سزا پائی تھی وہ کچھ اس طرح واقع ہوئی کہ پہلے دن استاد نے ہمیں ترکیب نحوی لکھوائی جو چار پانج صفوں پر مشتمل تھی۔ دوسرے دن کلاس میں پوچھنا شروع کیا تو میں بھی جواب نہ دے پایا تھا۔ یوں میرے ٹخنوں اور کہنیوں پر قاضی صاحب کی چھڑی کی ضرب پڑی تھی جو آج بھی مجھے یاد ہے۔ ہم دعا کیا کرتے کہ قاضی صاحب آج نہ آئے لیکن ہماری دعا کوکبھی شرف قبولیت نصیب نہیں ہوئی۔ قاضی صاحب کی شاگردی میں میری اردو کی ” مشہور نالائقی” کسی تک حد دور ہوگئی۔ اگرقاضی صاحب دو تین مرتبہ میری گوشمالی کرتے تو شاید ساری کمزوری دور ہوجاتی۔ گل مراد خان حسرتؔ صاحب میٹرک کرتے ہی ہمارے سکول میں استاد لگے تھے۔ اس وقت میں ساتویں میں تھا۔ ہمیں فارسی اور معاشرتی علوم پڑھاتےتھے۔ یہ بھی بہت سنجیدہ اورسخت گیر استاد تھے۔ ہم سے عمر میں معمولی بڑے تھے۔
نالائق لڑکوں کی پٹائی میں کھبی رعایت نہیں دی۔ ہم نے ان کو کلاس میں لڑکوں کے ساتھ خوشگوار موڈ میں کبھی نہیں دیکھا۔ان کے پریڈ میں بھی لڑکے ہمیشہ ڈرے ڈرے رہا کرتے۔ کلاس کے شرارتی لڑکے ان کے پریڈ میں سانس لینا بھی بھول جایا کرتے۔ قابل اورمحنتی استاد کے طور پر جانے جاتے تھے۔ حاجی خان صاحب چھٹی میں ہمیں انگریزی پڑھاتے تھے۔ یہ بھی نوجوان استاد تھے اور مضبوط قد کاٹھ کے تھے۔ لڑکوں میں مقبول تھے۔ زیادہ سزا نہیں دیا کرتے۔ ان کی کلاس میں بھی ہم خوش رہا کرتے۔ ہنسی مزاق بھی کیا کرتے اور ہماری بوریت دور کیا کرتے۔ کمال تو یہ ہے کہ حاجی خان صاحب اس وقت محض مڈل پاس تھے۔ جے وی بھی نہیں کی تھی۔ اب جب سوچتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ انٹرینڈ ہونے کے باجود ان میں ایک استاد کی ساری خوبیاں موجود تھیں۔
محبوب الٰہی صاحب بھی میٹرک غیر تربیت یافتہ تھے۔ ہمیں ساتویں میں ریاضی اور جنرل سائنس پڑھاتے تھے۔ شریف طبع اور کم گو استاد تھے۔ ان کی تعلیمی قابلیت میٹرک ودسائنس تھی اور بہت لائق استاد مانے جاتے تھے۔ انہوں نے ساتویں جماعت میں ہمیں تجربہ گاہ میں اوکسیجن، ہائیڈروجن اورکاربن ڈائی اکسائیڈ گیسز کی تیاری کا تجربہ کرائے تھے جو میٹرک اور بعد میں سی ٹی ٹرننگ کے دوران ہمارے کام آیا تھا۔آج کل ایف ایس سی کے طلبہ یہ گیسیں تیار نہیں کرسکتے۔ آج سے پچاس پچپن سال پہلے یہ تھے ہمارے اساتذہ جن کی تعلیم زیادہ سے زیادہ میٹرک تھی اور ان میں ستر پچھتر فیصد غیر تربیت یافتہ تھے لیکن ان کی ایمانداری، بچوں کی تعلیم کے ساتھ انتہا کی دلچسپی اور اپنے فرائض ادا کرنے میں خلوص و صداقت کی بدولت ہم جیسے دور دراز وادیوں میں بسنے والے کاشتکار والدیں کے نالائق بچے بھی علم کے زیور سے آراستہ ہوسکے اور ان کی جلائی ہوئی شمع کو روشن رکھنے میں کامیاب رہے۔ یہ مختصر تذکرہ ان کو خراج تحسین پیش کرنے کی غرض سےلکھا گیا اور یہ 1961 سے 1963 یعنی صرف تین سالوں کی کہانی ہے جب راقم مڈل سکول مستوج کا طالب علم رہا تھا۔ میں ان کے بعد کی خدمات کا ذکر نہیں کیا تاکہ ان کے بعد کے شاگرد بہتر انداز میں ہمیں بتاسکیں۔