Channelization further increased flood risk in Reshun
انہوں نے کہاکہ اپنی قدرتی حسن ورعنائی اور خوب صورتی کے لئے مشہور یہ گاؤں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران تین دفعہ 2010ء،2013ء اور پھر گزشتہ سال سیلاب برد ہوا لیکن محکمہ ابپاشی کے انجینئروں نے کوئی سبق نہیں سیکھااور اس سال بھی وہی غلطی دہرائے جارہے ہیں جوکہ پہلے اس سے سرزد ہوئے تھے ۔ گاؤں کے معززین نے 2014ء میں چینلائزیشن کے حوالے سے کہاکہ اس وقت بھی محکمے نے افسران اور ٹھیکہ دار نے ملی بھگت سے دو کروڑ روپے خرچ کئے گئے لیکن نہ تو سیلاب کے لائے ہوئے بڑے بڑے سائز کے پتھر وں کو ہٹائے گئے اور نہ ہی ندی سے ملبے کو ہٹا کر اس کی گہرائی کو بحال کیا گیا جس سے 2015ء میں آنے والی سیلاب کناروں سے باہر آگئی اور گاؤں میں تباہی وبربادی پھیلا دی اور 4.2میگاواٹ پیدواری گنجائش کی بجلی گھر کو بھی نیست ونابود کرکے سب ڈویژن مستوج کو تاریکی میں دھکیل دی۔ انہوں نے کہاکہ محکمے کی غفلت کی وجہ سے چار کروڑروپوں میں سے دو کروڑ خرچ بھی نہ ہوسکے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ اُس وقت بھی محکمے کے نااہل انجینئروں نے ہماری تجاویز کو پس پشت ڈال دیا تھا اور اب بھی وہی رویہ دہرایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ سال اور 2013ء میں سیلاب کے ساتھ آئے ہوئے دیوقامت پتھر ، چار معلق پلوں کے پشتے ، ندی میں ڈھکا ہوا ملبہ خطرے کا باعث ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ بجلی گھر کے قریب چینلائزیشن کا کام بہت ہی غیر معیاری ہے جہاں پتھروں کی تعداد بھی ذیاد ہ ہے اور ندی کی اندرونی سطح بھی اوپر ہے ۔ اس بارے میں جب ایریگیشن ڈویژن چترال کے ایگزیکٹیو انجینئر محمد زبیر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہاکہ ابھی کام کا صرف 50فیصد حصہ مکمل ہوا ہے اور کمیونٹی کی نشاندہی کردہ خامیوں کو دور کئے جائیں گے اور پراجیکٹ کے اختتام پر خطرناک ثابت ہونے والے پتھر ہٹادئیے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ٹھیکہ دار کو ندی سے ملبہ ہٹانے کی ادائیگی پیمائش کے مطابق کی جائے گی جس کی وجہ سے ٹھکیہ دار بھی اس بات کا پابند ہوگا کہ وہ ملبے کو ذیادہ سے ذیادہ ہٹا کر نالے کو خالی کردے۔ درین اثناء کمیونٹی کے بعض باخبر ممبران نے مزید بتایا کہ تخمینے میں 47لاکھ روپے ملبے کی ٹرانسپورٹیشن کے لئے رکھے گئے ہیں جن کو پانچ کلومیٹر دور لے جانے کا پرویژن رکھا گیا ہے لیکن اب تک ایک ٹرک لوڈ ملبہ بھی گاؤں سے باہر نہیں لے جایا گیا ہے۔ ]]>