Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

بلدیاتی انتخابات کا سبق

karimفکرِ فردا کریم اللہ خیبر پختونخواہ میں 30مئی کو منعقدہونے والی بلدیاتی انتخابات کا آخری معرکہ یعنی فائنل راؤنڈ انتخابات کے 92روز بعد 30 اگست2015ء کو اختتام پزیرہوئی۔اسی روزویلج /نیبرہڈ،تحصیل اور ضلع کونسل کے منتخب اراکین سے حلف اٹھایاگیاجبکہ اگلے روزیعنی 31اگست کو تحصیل اور ضلعی حکومتوں کاقیام عمل میں آیاخیبرپختونخواہ میں 30مئی کے متنازعہ بلدیاتی انتخابات لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2013ء کے تحت منعقد ہوئے جو کہ مئی 2013ءکے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت نے کے پی اسمبلی سے منظورکروایاتھا۔ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2013ء کے نمایان خدوخال: دیکھاجائے تو پاکستان کی 68سالہ تاریخ کے چار فوجی آمریتوں نے اپنی غیر مقبول حکومتوں کو طول دینے کے لئے جہاں سیاسی جماعتوں کے خلاف محاذ کھولے رکھا وہاں عام انتخابات کی بجائے مقامی حکومتوں کورائج کرکے اپنی حکومتوں کو دوام بخشنے کا بندوبست کرتے رہے جو عموماَغیر جماعتی بنیادوں پر منعقد ہوتے رہے۔ایوب خان کی آمریت کے سایہ تلے بنیادی جمہوریت،ضیائی ظلم وبربریت نے ڈسٹرکٹ کونسل اور غیر جماعتی اسمبلی جبکہ مشرف کی نام نہاد روشن خیالی کی کوکھ سے لوکل کونسلز کا نظام جنم لیا۔آمریت کی سب سے بڑی دشمنی سیاسی جماعتوں کیساتھ رہی یہی وجہ ہے کہ ایوب خان سے لیکر مشرف تک ہر فوجی آمرنے حقیقی سیاسی جمہوری قوتوں کو تباہ کرکے ان کی جگہ شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفاداروں کو سیاسی جماعتوں کا نام دے کر ہوشیار اداروں کی مدد سے اور مال ودولت کے ذریعے ملکی سیاسی فضا میں پروان چڑھاتے رہے۔فنکشنل مسلم لیگ،پاکستان نیشنل ایلائنس،تحریکِ استقلال،مسلم لیگ (ن)،آئی جے آئی ،مسلم لیگ ق،ایم کیو ایم،متحدہ مجلس عمل،پاکستان پیپلز پارٹی پیٹریاٹ وغیرہ ان کی چند مثالین ہیں۔اسی کے ساتھ ہی آمرانہ دور کے مقامی حکومتوں کا نظام بھی غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد ہوتے رہے۔جسکا بنیادی مقصد عوامی حکومت کا جھانسہ دے کر آمریت کے استحکام کے لئے راستہ ہموار کرناہوتاتھا۔ماضی کے برعکس جب 2013ء کے انتخابات میں خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو نصف سیاسی اور نصف غیر سیاسی بلدیاتی نظام متعارف کیاگیا۔اس نظام کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اختیارات کو زیادہ سے زیادہ نچلی سطح پر منتقلی کے لئے ویلج/نیبرہڈکونسل کاقیام عمل میں لایاگیا۔لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے مطابق ہر ویلج/نیبر ہڈ کونسل دو سے دس ہزارافرادپر مشتمل ہوتا ہے جس میں جنرل کونسل کی پانچ سے دس نشستیں،دو خواتین،ایک کسان اور ایک سیٹ نوجوانوں کے لئے مختص کی گئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی سیاسی نظام میں نوجوانوں کو نمائندگی ملی ہے اسکے علاوہ تحصیل اور ضلع کونسل میں بھی نوجوانوں کے لئے نشستیں مختص کی گئی ہے۔عنایت اللہ خان خیبر پختونخواہ کے وزیر بلدیات ہے اپنے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ”بلدیاتی نظام عوامی مسائل کے حل کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت بلدیاتی انتخابات اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے لئے سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کررہی ہے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے لئے سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کررہی ہے اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرکے عوام کو بااختیار بنانے کے لئے خیبر پختونخواہ میں بالکل نیا نظام متعارف کیاگیا ہے جبکہ موجودہ صوبائی حکومت خلوصِ نیت سے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرچکی ہے ملک میں جمہوریت اختیارات اور فنڈز کوعوام کے نمائندوں میں تقسیم کرنے ہی سے مضبوط ہوتی ہے صوبائی ترقیاتی بجٹ کا 30فیصدحصہ بلدیاتی اداروں کے ذریعے خرچ ہوگااور ویلج کونسلرز اپنے علاقوں میں 19محکموں کی مانٹرنگ کریں گی”۔حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ویلج /نیبر ہڈ کونسل کے اراکین غیر جماعتی جبکہ تحصیل اور ضلع کونسل کے اراکین جماعتی بنیادوں پر منتخب ہوگئے۔ بلدیاتی انتخابات میں چترال کی سیاست: ملک کے دوسرے حصوں کے برعکس ہندوکش اور ہندوراج کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع خطہ چترال کی سیاست انتہائی دقیانوسی،پیچیدہ اور صوبائی وملکی سیاست سے یکسر مختلف ہے یہاں کے عوام ہر دور میں ہوش کی بجائے جوش کا مظاہرہ کرکے اپوزیشن جماعتوں کے حق میں ووٹ کاسٹ کرتے آئے ہیں۔اہالیان چترال کھبی لواری ٹنل کے نام پر تو کبھی مشرف کی خودساختہ خدمات پر احمق بنتے ہیں۔حالیہ بلدیاتی انتخابات سے قبل خلافِ توقع ایکدوسرے کے سایوں سے بھاگنے والی دومذہبی جماعتیں یعنی جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام(ف)نے چترال کی سطح پر انتخابی اتحاد قائم کیا جو کہ انتہائی نامساعد حالات کے باؤجود آخری وقت تک برقراررہی اور اتحاد کو ممکن بنانے اور اسے برقراررکھنے میں نومنتخب ضلع ناظم اورجماعت اسلامی کے باصلاحیت ضلعی امیر مغفرت شاہ کی مدبرانہ صلاحیتوں اور شاطرانہ سیاست کا بڑاہاتھ تھا۔مذہبی جماعتوں کے اس اتحاد نے ضلع کونسل کے 24میں سے 12نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔چونکہ ضلع کونسل میں جماعت اسلامی کے مقابلے میں جمعیت علمائے اسلام کے اراکین کی تعداد زیادہ تھی جس کی وجہ سے حکومت سازی کے مرحلے میں دونوں جماعتوں کے درمیان خلیج پیداہوئی اسکے بعد دیگر سیاسی جماعتوں نے جلتی پر تیل کا کردار اداکیا۔پاکستان پیپلز پارٹی،پاکستان تحریک انصاف اورآل پاکستان مسلم لیگ کی بھرپورکوششوں کے بعد مذہبی جماعتوں کے اس اتحاد کوتوڑنے میں کامیابی ہوئی جب جمعیت علمائے اسلام کی صوبائی قیادت نے مولانا عبدالرحمن کو ضلع نظامت کا انتخاب لڑنے کے لئے ٹکٹ جاری کیاضلع نظامت کے الیکشن سے قبل چترال کے ایک مقامی نیوز ایجنسی میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق”جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی امیر گل نصیب خان کی طرف سے ٹکٹ جاری کرتے ہوئے ضلعی قیادت کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے ساتھ اپنا اتحادبرقرار رکھتے ہوئے الیکشن لڑتاہے یاکہ دوسری جماعتوں کے ساتھ ملکر حکومت بناتی ہے مگر دونوں صورتوں میں ضلعی نظامت کے لئے امیدوار جے یوآئی ہی کا ہوگا”۔اس فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف،پاکستان پیپلز پارٹی اور آل پاکستان مسلم لیگ نے جے یوآئی کے امیدوار مولانا عبدالرحمن کی غیر مشروط حمایت کردی اور اپنے کونسلر کو ہدایت جاری کی گئی کہ وہ جماعت اسلامی کے امیدوار مغفرت شاہ کی بجائے مولانا عبدالرحمن کو ووٹ دیں،اس فیصلے بلکہ سازش کے باؤجود جے آئی کے نوجوان قائد مغفرت شاہ اپنے مخالف مولانا عبدالرحمن کو 15کے مقابلے میں 22ووٹوں سے شکست دے کر ضلع نظامت کی کرسی پربراجمان ہوگئے۔حیرت انگیز طورپر پاکستان پیپلز پارٹی کے کونسلر نے پارٹی فیصلے کو بالائے طاق رکھ کر مغفرت شاہ کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کیاجبکہ جمعیت علمائے اسلام کے کئی اراکین بھی اپنے پارٹی کے ضلع نظامت کے امیدوار کے خلاف جماعت اسلامی کے امیدوار کو ووٹ دیاجس کے بعد جمعیت علمائے اسلام کی ضلعی کابینہ کو تحلیل کرکے اپنی پارٹی کے امیدوار کے خلاف ووٹ کاسٹ کرنے والے ضلع کونسلرز کے خلاف انکوائری شروع کردی ہے شنید ہے کہ جمعیت علمائے اسلام ف کے اراکین اپنے پارٹی کے خلاف ووٹ کاسٹ کرنے کی وجہ سے اپنی نشستوں سے ہاتھ بھی دھوسکتے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کی ضلعی قیادت نے بھی مغفرت شاہ کو ووٹ دینے والے اراکین کے خلاف کاروائی کااعلان کیا ہے۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے اتحاد کا سبق: جب مئی کے آخری ہفتے خیبر پختونخواہ میں مقامی حکومتوں کے لئے انتخابات کا اعلان ہواتو اسکے ساتھ ہی سیاسی جوڑتوڑ اور وفاداریاں تبدیل ہونے کا سلسلہ شروع ہوا چترال میں مذہبی جماعتیں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے انتخابی اتحاد قائم کیا جسکی دیکھادیکھی سیکولر جماعتیں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی،پاکستان تحریک انصاف اورآل پاکستان مسلم لیگ نے بھی سیٹ ایڈجسمنٹ کا فیصلہ کیا لیکن سیاسی ناعاقبت اندیشی،زمینی حقائق سے عدم واقفیت اورزیادہ سے زیادہ حصہ داری کے مطالبے کی وجہ سے یہ اتحاد قائم نہ رہ سکا۔ اگر انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی،پاکستان تحریک انصاف اور آل پاکستان مسلم لیگ کی قیادت مغفرت شاہ کا راستہ روکنے کے لئے جمعیت علمائے اسلام کے امیدوارکی غیر مشروط حمایت کرسکتی ہے تو پھر سوال یہ پیداہوتاہے کہ انتخابات سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف ان چودہ وارڈز میں جہاں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے انتخابی اتحاد قائم کیاتھا ان میں اتحاد قائم کیوں نہیں کی؟اگر ان چودہ وارڈز ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی اورپاکستان تحریک انصاف ملکر انتخابات لڑتے تو شائد مذہبی جماعتوں کو وہ کامیابی نہ ملتی جو تین مئی کے بلدیاتی انتخابات میں مذہبی جماعتوں کو ملی۔ ضلع اور تحصیل حکومتوں کا امتحان: اب جبکہ صوبہ بھر کی طرح چترال میں بھی تحصیل اور ضلعی حکومتیں قائم ہوکر ضلع نظامت کا تاج مغفرت شاہ کے سر سج گیا ہے۔مغفرت شاہ صاحب کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو لوئر مڈل کلاس کے یوفت فیملی سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار اور موقع شناس نوجوان سیاسی راہنما ہے۔جنہوں نے سن 2005ء کے بلدیاتی انتخابات کے بعد انتہائی نامساعد حالات کے باؤجود شہزادہ محی الدین کو شکست دے کر ضلع نظامت کا عہدہ اپنے نام کرکے سیاسی پنڈتوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیاتھا اس وقت بھی شہزادہ محی الدین جیسے قد کاٹھ کے حامل سیاست دان جن کے پاس دولت کی ریل پیل کے علاوہ وفاداریاں خریدنے کے گرسے بھی بخوبی واقف تھے ان کو ضلع نظامت میں شکست دینا کوئی معمولی بات نہیں تھی لیکن مغفرت شاہ صاحب نے اپنے یوفت خاندانی پس منظر کولے کر جس انداز سے موروثی سیاسی چالبازوں کو چاروں شانے چت کردیئے وہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جائینگے اپنے پہلی کامیابی میں مغفرت شاہ نے سب ڈویژن مستوج اور لوٹکوہ کے ان ناظمین کی مدد حاصل کی جنکا خاندانی پس منظر بھی یوفت تھا اورجو نظریاتی طورپر پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اسماعیلی عقیدے کے پیروکارتھے اس کامیابی نے چترال میں سنی اسماعیلی تعلقات کو نئے سرے سے مستحکم بنایاتھااوردوسری بار پھر جب مغفرت شاہ ضلع نظامت کے لئے میدان میں اترے تو ماضی کی روایات کو برقراررکھتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے یوفت فیملی اور اسماعیلی مکتب فکر کے ممبران ضلع کونسل نے نظریاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر مغفرت شاہ پر بھر پور اعتماد کیا تو اس کے جواب میں نومنتخب ضلع ناظم نے بھی چترال میں منعقد ایک بڑے عوامی جلسے میں اسماعیلی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین ضلع کونسل کا خصوصی شکریہ اداکیا اور اس بات کا عندیہ ظاہر کیا کہ وہ بلاتفریق پورے چترال کے عوام کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑئنگے ان کی دورحکومت میں کسی پر بھی ظلم وزیادتی نہیں ہو گی اور ہر طبقے کو ساتھ لیکر چلنے کے عزم کا اعادہ کیا ہےنومنتخب ضلع ناظم مغفرت شاہ ایک تجربہ کارمنتظم ہے تو ان پر بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ محض بیانات کی بجائے عملی اقدامات کی جانب توجہ دیں ضلع چترال عمومی لحاظ سے لاقانونیت کا گھڑ بن چکا ہے ٹمبر،تجاراورٹرانسپورٹ مافیاز نے عوام سے جینے کا حق چھن لیا ہے جبکہ سرکاری محکموں میں اقراباپروری،کرپشن اور خردبردکابازار گرم ہے،ضلع اورتحصیل حکومتوں کے سامنے مسائل ومشکلات کا انبارہے جبکہ عوام کی توقعات بہت زیادہ۔اب ضلعی حکومت کے تجرنہ کارقائد ان مسائل کو حل کرسکتے ہیں یاپھر وہی پرانے ڈگر پر نئے کھلاڑی میدان سجائنگے اسکافیصلہ تو آنے والاوقت ہی بتائے گاالبتہ عوام کو مایوسی وناامیدی کی دلدل سے نکالنا مغفرت شاہ صاحب کی بڑی ذمہ داری ہے۔ ]]>

You might also like
1 Comment
  1. Salah ud Din says

    Well written Kareem ullah sb,

Leave a comment

error: Content is protected!!