تقریب حلف برداری

javedدھڑکنوں کی زبان محمد جاوید حیات بہت بڑا ہا ل تھا ۔اعلیٰ انتظام تھا ، ریٹرننگ آفیسر خود پروگرام کی نگرانی کر رہا تھا ۔پولیس گارڈ تھے ۔افیسر تھے ۔صحافی تھے ۔ْسیاست سے دلچسپی رکھنے والے لوگ تھے ۔پارٹی کارکن تھے ۔بزرگ شہری تھے ۔نوجوان تھے ۔منتخب نمائند وں کے رشتہ دار تھے ۔علماء تھے ۔عرغیکہ ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے ۔نمائند ے آتے گئے ہال کھچا کھچا بھرتا گیا۔نمائند وں کے چہروں پر نمائندگی کی چمک تھی ۔ایک گونہ برتری تھی ۔اقتدار کا ہلکا پلکا سرور تھا ۔خواتین وحضرات تھے تقریب حلف وفاردای تھی ۔آج اور اسی لمحے ’’قسم ‘‘ کھانی تھی ۔۔میں قوم کی امانت ۔۔۔ ہاں امانت۔۔۔ لوگوں کے حقوق ۔۔ ہاں حقوق۔۔ کی پاسدار اللہ کوحا ضر ناظر جانکر کرونگا /کرونگی ’’ اللہ اکبر ‘‘ میں امانت میں خیانت نہیں کرونگا / کرونگی ۔۔۔ یہ عجیب دن تھا ۔عجیب لمحے تھے ۔اسی لمحے میں ہال کے ایک کونے میں بیٹھا تھا ۔اچانک مجھے کچھ ہوگیا ۔۔ میری آنکھوں کے سامنے تاریخ اپنے آپ کو دھرانے لگی۔’’صدیق اکبرؓ رو رو کہنے لگے۔۔۔۔کاش میں خشک گھاس ہوتا۔۔۔فارواق قیامت کے دن حساب کتاب سے بچ جاتا۔۔۔فاروق اعظمؓ فرمانے لگے دریائے فرات کے کنارے بھوکے کتے کی زمہ داری بھی میری ہے۔امت میں مشک کی خوشبو تقسیم فرمانے لگے۔حضرات ابو ذرغفاریؓ لوگوں میں اعلان کرتے پھرنے لگے لوگو!تم دنیا دار ہورہے ہو۔علی مرتضیٰ شیر خداؓ مسجد کے کھونے میں بیٹھ کر خالی شوربہ میں روٹی بگھو کر کھانے لگے پوچھنے پر کہنے لگے میں اپنے حصے کی بوٹی مہمان کودیا۔میں اس منظرنامے میں ڈوب جاتا ہوں ہوں۔ہال بھرجاتا ہے۔مائیک ان ہوتا ہے سٹیج سکرٹری مائیک اٹھاتا ہے۔اللہ کا نام لیتا ہے ۔ضلعی خطیب مولانا فضل مولا اللہ کے کلام کی تلاوت کرتا ہے ترجمہ پیش کرتا ہے پھر سٹیج سکرٹری حاضرین کو مخاطب کرکے کہتا ہے۔۔۔میں تمہاری ہمت اور جرات کو سلام پیش کرتا ہوں تم نے دیکھتی آنکھوں،سنتے کانوں اور بہ قائمی ہوش وحواس مخلوق کے حقو ق کی زمہ داری اپنے کاندھوں پر لی ۔تم اس انصاف کے دن جس کو روز قیامت کہا جاتا ہے میں حاضری سے لرزہ برآندام کیوں نہیں ہوتے ہو۔۔۔تم جب زرے زرے کا حساب دوگے۔تم لوگوں کے زمہ دار کہلاؤگے۔لوگ تم سے اپنا حقوق مانگیں گے۔لوگوں کو’’شکایت‘‘ ہوگی تم’’جوابدہ‘‘ہونگے۔پیشی اللہ کے حضور ہوگی۔اس قم کا ایک ایک روپیہ تمہارے پاس امانت ہے۔اور تمہیں ہی اس کی حفاظت کرنی ہے۔انسان پہلے ہی زندگی کے لمحے لمحے کے لئے جوابدہ ہے۔یہ ’’اضافی‘‘ بوجھ ہے اور یہ تمہارے نازک کاندھے۔۔۔جس امات سے تمہاری نسبت ہے وہ ہمیشہ حساب کتاب سے بھاگتی رہی ہے۔ڈرتی رہی ہے۔جس امت کو ’’اخرت‘‘پہ یقین ہے تم اس سے نسبت رکھتے ہو۔انصاف کا دن اللہ اکبرانصاف کا دن آئے گا۔تم نے ووٹ نانگتے ہوئے وعدہ کیا اب ہر ہر وعدے کو ہر ہر لمحہ ایفا کرنا ہے۔۔۔۔جو وعدہ پورا نہیں کرتااس کا کوئی۔۔۔۔اور تم جس قوم سے نسبت رکھتے ہو اس کے پاس ایک امانت ہے۔اس امانت کا نام ملک خداداد ہے۔جواس کے نظریے اس کے اثاثے اور اس کے جغرافیے کی حفاظت نہیں کرتا وہ نیست ونابود ہوجاتا ہے۔۔۔۔آج کا دن یہ ہال ،یہ لمحے تمہاری زندگی کے خوفناک ترین لمحے ہیں۔۔۔حاضرین پر ایک خوف طاری ہوجاتا ہے۔ ان کی پیشانوں پر پسینے کے قطرے ہیں۔سب لرزہ برآندام ہیں۔میرا منظر نامہ سٹیج سکرٹری کی گفتگو میں بدل گیا ہے۔ریٹرنگ افیسر حلف نامہ اٹھاتے ہیں۔نمائندے اپنے اپنے فائلیں اٹھاتے ہیں۔ریٹرننگ افیسر کے ساتھ حلف کے الفاظ دھراتے ہیں۔۔۔میں اللہ کو حاضر وناظر جان کر عہدکرتا ہوں۔۔۔ان کے بدن لرز رہے ہیں۔میں ہاتھ اٹھا کر دعا میں مصروف ہوں۔۔۔یا اللہ یہ عہد’’عمل‘‘بن جائے۔عمل ’’کردار‘‘بن جائے۔اور ’’کردار‘‘میں خلوص اور ایثار بھرجائے۔۔۔ایفائے عہد کا سورج اس ہال سے طلوع ہوجائے اور پورے ملک خداداد کوروش کرے۔۔۔ملک خداداد میں سیاست کو’’عبادت‘‘نہیں سمجھا جاتا۔اقتدار کو’’امانت‘‘نہیں سمجھا جاتا۔کرسی کو خدا کی’’رحمت‘‘اور ’’ازمائش ‘‘نہیں سمجھا جاتا۔اس ملک میں تبدیلی اور ’’تعمیر‘‘کے نعرے اٹھتے ہیں۔’تعمیر ‘‘کا نعرہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خاک بدہن اس ملک میں پہلے سے ’’تخریب ‘‘موجود ہے۔تبدیلی کا نعرہ اس بات کا ثبوت ہے اس ملک میں زندگی مفلوج ہے۔یااللہ ملک خداداد کو امن امان اور دیانت دار قیادت عطاکر۔۔۔۔ریٹرنگ افیسر الفاظ دھنی ہیں۔انہوں نے بہت دلنشین ،مفصل اور واضح انداز میں نمائندوں کے فرائض گنوائے۔اور ان کو اگاہ کیا کہ ان کا مقام کیا ہے۔ریٹرنگ افیسر کی ہدایات میں خلوص تھا۔میں نے حال سے باہر آتے ہوئے دبے لہجے میں خود کلامی کی۔جس آفس میں جاتا ہوں وہاں زمہ دار نوجوان کرسیوں میں نظر آتے ہیں۔جس قوم کے نوجوان زمہ دار ہوں وہ قوم فولاد بن جاتی ہے۔ اُس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد ہال سے نکل کر سارے حاضرین چائے پہ نکل جاتے ہیں میں تشکر کے آنسو بہاتے ہوئے اپنی راہ لیتا ہوں ۔’’راہ‘‘میری پاک سرزمین کی ہے ۔جس پر قدم رکھ کر میں اس کی محبت میں سب کچھ بھول جاتا ہوں۔]]>

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *