شیر ولی خان اسیر ایک نابغہئ روزگار شخصیت
تحریر: شمس الحق قمرؔ چترال۔ حال گلگت
یہ تقریباً تیس اکتیس سال اُدھر کی بات ہے جب میں اور میرا ایک اور دوست نذیر احمد سکول تفریح کے وقت ہائی سکول بونی کے ساتھ ملحق قبرستان کے بیچوں بیچ لوٹ بخت (بڑے پتھر) کیپیچھے کچھ اور لڑکوں سے اُن کے برٹ ( چپاتی) چھینے کے لئے گھات لگاکے بیٹھے ہوے تھے کہ دفعتاً آس پاس آرام سے بیٹھے ہوئے مست لڑکے چونک پڑے، اُن میں سے کچھ گردن نکال نکال کر سکول کے پچھواڑے سے ہماری طرف نکلنے والی گلی کو تکنے لگے جبکہ کچھ طلبأ، جو کہ غالباً سگریٹ پی رہے تھے، لوٹ بُخت کے بالکل متوازی خط پر استادہ اخروٹ کے سال ہا سال پرانے اور دیو ہیکل درخت کے اوٹ میں کھیتوں کی طرف کھسک گئے۔
میں اور میرا دوست نذیر احمد بھی ہمہ تن گوش ہوگئے۔کیا دیکھتا ہوں کہہمارا بہت ہی پرخلوص استاد رحمان فدا (مرحوم) ایک اور خوبرو، پر کشش اور وجیہہ نوجوان قدرے مُنحنی مگر قد کاٹھ میں رحمان فدا سے خاصے اونچے، اونچی اونچی اور لمبی ناک،، سنولا سا مگر قدرے طویل چہرہ، گلابی پتلے برت ہونٹوں کے اوپر ہلکی ،باریک اور نازک مونچھیں کسی قیمتی شیمپو سے دھوئے ہوئے چمکیلے اور ریشمی بالوں کی لٹیں بار بار پیشانی پر اویزاں ہوتی رہیں اوریہ نوجواں اپنیبائیں ہاتھ کی پہلی دو انگلیوں کو ترچھی قینچی بناکر ماتھے پر بے ہنگم گرنے والی بالوں کی لٹیں اوپر کی طرف سنوارتا ہماری طرف بڑھے اور یوں دائیں کلائی میں گھڑی کی چمکیلی زنجیر سے سورج کی کرنہیں منعکس ہو ہوکر بار بار ہماری طرف آتیں اور میری آنکھوں کو خیرہ کرتیں۔ مجھے شاید بچپن سے خوبصورت چیزیں اچھی لگتی تھیں لہذا اُس نوجوان کے چلنے کی چال، شلوار قمیض کی گرم لوہے کے نیچے دبی ہوئی سلوٹیں، پاؤں میں سیاہ پالش کی روشنائی سے ہر قدم کے ساتھ چمکنے والے جوتوں کے ساتھ خرامان خراماں چلنے سے ایک مجھے ہی نہیں بلکہ ہر دیکھنے والے کو دعوت نظارہئ حسن دے گیا ۔ ظالم نے عطر بھی ایسا لگایا تھا کہ جس کی مسحورکن اور ہلکی پھلکی مہک سے اُس نوجوان کے گزرنے کے بعد بھی ماحول دیر تک خوشگوار رہا۔
یہ خوشبو اُس چھوٹی شیشی والی خوشبو سے بہت الگ تھی جو عام طور پر اُس زمانے میں لوگ لگاتے تھے۔بالکل انوکھی نکہت کا ایک پُرکیف احساس تھا جو کہ آج اگرچہ عنقا ہے تاہم احساس اب تک باقی ہے۔ کچھ طلبأ نے سلام کیا اور آپ نے سلام کرنے والے طلبأ سے دست بلندی بھی کی۔ آپ جناب کے گزرنے کے بعد طلبأ میں چمی گوئیاں ہونے لگیں۔ معلوم پڑا کہ یہ شیر و لی خان اسیرؔ صاحب تھے جو کہ اُس وقت ہائی سکول بریپ میں ہیڈ ماسٹر تھے اور اِس وقت کسی کام سے ہائی سکول بونی آئے تھے۔ اس واقعے کے تقریباً ایک سال بعد آپ کا تبادلہ ہائی سکول بونی میں ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایک انتہائی اصول پسند اور مخلص ہیڈماسٹر علی اکبر خان کی تبدیلی کے بعد کچھ مہینوں تک کوئی ہیڈ ماسٹر نہیں آیا تھا اور یوں سکول کا نقشہ بدل چکا تھا۔ شیر ولی خان کے آتے ہی سکول میں ایک عجیب تبدیلی دیکھنے کو ملی۔سب سے پہلی تبدیلی ہم نے یہ دیکھی کہ سکول کی حاضری کا وقت صبح آٹھ بجے تھا لیکن صاحب موصوف صبح سویرے سکول میں موجود پایا جاتا ہمیں آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ہمارے ہیڈ ماسٹر اپنے آفس میں ہی رات گزارتے تھے یا صبح پو پٹھنیسے پہلے آکر اپنی سیٹ پر براجمان ہوتے تھے۔
موصوف کی یہ بلا جواز حرکتیں ہمیں اچھی نہیں لگنی لگیں کیوں کہ ہم کچھزیادہ اصول پسند نہیں تھے ہمارے کچھ اساتذہ ایسے بھی تھے جو علی اکبر خان ہیڈ ماسٹر کے جانے کے بعدبے لگام ہو گئے تھے۔ کمرہ جماعت میں تاخیر سے آتے تھے یا اکثر غیر حاضر رہتے تھے ان کی تاخیر اور غیر حاضر رہنے سے ہم مزے سے کھیلا کرتے تھے اور کچھ اساتذہ تو اور بھی اچھے تھے قیلولہ بھی کمرہ جماعت کی کرسی پر ہی فرماتے تھے اور ہم کمرہ جماعت میں ادھم مچاتے، کھیلتے کودتے اور وہ اپنے رنگین خوابو ں میں مستکبھی دونوں ٹانگین سکیڑ کر کرسی پر رکھ کے خراٹے لیتے اور کبھی ٹانگین پھیلاکے آرام فرماتے تھے (یاد رہے کہ کوئی ایک استاد ایسا تھا) ۔ شیر والی خان اسیر جب سے آئے تو طلبہ برادری پر گویا ظلم شروع ہوا۔ ہماری پڑھائی پر کڑی نظر رکھنی شروع ہوئی، اساتذہ وقت پر ڈیوٹی پر آنے لگے، کمرہ جماعت میں ہمیں کام ملنے لگا، کام کی چیکنگ بھی شروع ہوئی اور کام نہ کرنے کی سزا بھی ملنے لگی، کرسیوں پر نیم عنودگی کی حالت میں پڑے رہنے والے اساتذہ بھی ہوش کے ناخن لینے لگے۔ عجیب ماحول پیدا ہوا جیسے خدا کی طرف سے کوئی عذاب کسی قوم پر ناکردہ گناہوں کی پاداش میں ناز ل ہوا ہو۔ سچی بات تویہ ہے کہ ہم میں سے اکثر شیر ولی خان اسیر کے لئے موت کی دعائیں بھی مانگنے لگے تھے کیوں کہ اُس نے ہمیں پڑھنے کی رغبت دلانے کی کوشش کی تھی جو کہ ہماری آزاد زندگی کے تھی۔
ہم ہی نہیں بلکہ چند ایک اساتذہ بھی موصوف کے اس رویے سے نالاں تھے کیوں کہ موصوف نے ایک دن اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ ہم اساتذہ کی مثال اُن فوجی سپاہیوں کی ہے جو اپنے محاذ پر حالت جنگ میں ہمیشہ چوکس رہتے ہیں اور اس حالت میں تھوڑی سی بھول بھی پورے ملک کی عظمت پر حرف لانے اور اپنے پیشے کے مقدس دامن کو ہمیشہ کے لئے داغدار بانے کا باعث بن سکتی ہے۔ لہذا جو لوگ پیشہ ئ درس و تدریس میں اپنے پیشے کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھتے ہیں وہ نہ صرف اس پیغمبرانہ پیشے کی تذلیل کرتے ہیں بلکہ ملک و قوم کے بھی دشمن ہیں اور ایسے تمام لوگوں کے لئے نہ صرف ہائی سکول بونی بلکہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں جگہے کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔اُس زہر الود تقریر کے بعد سے چند ایک اساتذہ آپس میں کچھ اس انداز کی کھسر پھسر کر تے تھے کہ جس سے ہماری بھی دل کی بھڑاس نکل جاتی۔لیکن ہماری دعاؤں کو شرف قبولیت حاصل نہیں ہوئی ہمارا ہیڈ ماسٹر دن دکنی اور رات چکنی ترقی کرتا اور پھلتا پھولتا رہا۔
اِدھر ہماری ناک میں دم ہوا۔ کمرہ جماعت میں ہر پیریڈ کے دوران موصوف ایک مرتبہ ضرور جھانکتا اسی وجہ سے اساتذہ نے ہماری پڑھائی پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کی۔قوانیں و ضوابط میں اتنا سختتھے کہ ہمارے کچھ دوست موصوف کو از راہ تفنن قائد اعظم کا بڑا بھائی کہتے تھے اور یہ خیال کچھ کچھ اُس پر جچتا بھی تھا کیوں کہ موصوف قد کاٹھ میں بھی قائد اعظم جیسا دکھتا تھا اُوپر سے نظم ضبط کی پابندیوں نے اُسے واقعتاً قائد اعظم بنایا تھا۔ موسم سرما ئ کی لمبی تعطیلات کے بعدہمارا سکول کا آہستہ آہستہ تبدیل ہونے لگا بنجر اور سنسان صحن ایک باغیچے میں تبدیل ہوا قسم قسم کے پھول اُگ آئے مخملیں گھاس لگائی گئی۔ یہ جگہ اتنی دلکش بنی تھی کہ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ جب بھی کسی مشاعرے کے انعقاد کی خبر ارسال فرماتے تو لکھتے ” انجمن ترقی کھوار حلقہ بونیو انتظامو سورا باک ہیہ مشاعرہ ہنون پشینو چھور بجو عملہ ہائی سکول بونیو سبزہ زارہ بوئے“ سکول کا سبزہ زار پورے علاقے میں مشہور ہوا تھا۔
کیاریوں پررنگ برنگے پھول اور بیچ میں ململیں اور مخملیں، سرسبز وشاداب، تازہ اور نرم و ملائم گھاس پر کھوار مشاعرے کی شمع ئ محفل روشن ہوتی۔ شیر ولی خان اسیر کے بارے میں یہ سوال درست نہیں کہ آپ کیا ہیں اور کیا کرتے تھے بلکہ یہ سوال صحیح ہوگا کہ آپ کیا نہیں ہیں اور آپ کیا نہیں تھے۔موصوف کی زندگی پر قلم اٹھاتے ہوئے مجھے فیض احمد فیض کے والد محترم جناب سلطان محمد (مرحوم) کے بچپن، لڑکپن اور جوانی کے ایام کا تذکرہ یاد آتا ہے۔جو کہ انتہائی نا مساعد حالات میں کیمبرج یونیورسٹی تک پہنچے تھے (پرورش لوح و قلم، مصنفہ لُد میلا وسیلیو ا) ۔
صاحب موصوف کے اپنے مطابق اکتوبر ۲۰۱۴ تک آپ کی عمر ۶۴ سال تھی اب یعنی ۲۰۱۵ کو ۶۵ سال عمر ہوگی اس حساب سے موصوف کی پیدائش کا سال ۱۹۵۰ بنتا ہے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بھوک اور افلاس کا مہیب سایہ ہر سوپھیلاہوا تھا۔ اُس زمانے میں کچھ خاندان ایسے تھے جن کے گھروں میں فاقے اگرچہ ہوتے تھے لیکں بھوکوں مرنے کاخوف نہیں تھا اور ایسے تمام خاندان متمول سمجھےجاتے تھے جن خاندانوں میں بچوں کے بھوک سے مرنے کا خوف نہ ہوتا۔ ایسا ہی ایک کنبہ چھارغیریو لال کا تھا جو کہ اُس وقت مستوج کے سامنے والا گاؤں پارکوسپ میں آباد تھے۔ شیر ولی خان کی ولادت چھار غیریو لال کے یہاں پرکوسپ میں ہوئی۔
موصوف نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم چترال کے اندر مختلف سکولوں سے حاصل کی لیکن اُس زمانے کی غربت کے باوجود قسمت کی دیوی مہربان رہی، میٹرک کے بعد آپ کے والد نے آپ کو اُس زمانے کے سب سے اعلیٰ تعلیمی ادارہ اسلامیہ کالج میں داخل کیا۔ قدیم اعلیٰ تعلیمی اداروں میں علی گڑہ کالج اور اسلامیہ کالج پشاورعلم و ہنر کے لحاظ سے اتنے معتبر تھے کہ ان کالجوں سے فارغ التحصیل طلبہ کو بغیر کسی ٹیسٹ انٹر ویو کے اعلیٰ ملازمتوں کے مستحق سمجھا جاتاتھا۔ پاکستان میں اسلامیہ کالج میں داخلہ ملنا گویا برصغیر کے سب سے مشہور علمی ادارہ علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلے کا بالکل مساوی عمل تھا۔ شیر ولی خان کو قدرت نے ذہن کما ل کا عطأ کیا تھا آپ نے زندگی کے دو بہترین سال اس تعلیمی ادارے میں ملک کے نامور اساتذہ کی زیر نگرانی گزارے اور مالی حالات کی ناہمواری کی وجہ سے باقاعدہ طور پر پڑھائی کا سلسلہ منقطع کرکے خاندان کے باقی بہن بھائیوں کی کفالت کا بار گراں اپنے والد صاحب سے اٹھا کر اپنے شانوں پر رکھدیا۔ اُس زمانے میں چترال میں ادارے اتنے زیادہ نہیں تھے کہ موصوف کو اسکی سرٹیفیکیٹ کی متوازی ملازمت مل جاتی لے دے کے چند ایک سکول تھے۔
موصوف کی ایک خواہش ہمشہ سے یہ رہی ہے کہ اپنے علاقے میں رہ کر اپنے لوگوں کی خدمت کی جائے اگرچہ اسلامیہ کالج سے ایف اے کرنے کے بعد پشاور میں بہت اچھی ملازمتیں مل سکتی تھیں لیکن اسیر کو اپنے علاقے کی خد مت کے خیال نے جکڑے رکھاتھا۔ محترم اسیر صاحب نے چترال کا رخ کیا اور پرائمری استاد کی حیثیت سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔اور کچھ ہی عرصہ بعد کمیشن کا امتحان پاس کر کے ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ موصوف نے چترال کے مختلف سکولوں میں ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے اپنی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔طویل عرصے تک ڈسٹرک ایجوکیشن آفیسر کے طور پر اپنے علاقے کی خدمت کی ہے اس ملازمت میں ضلع بھر کے تمام سکولوں پر کڑی نظر رکھنا آپ کی زمہ داریوں میں شامل تھا۔ اس کے علاوہ موصوف پرنسپل کی حیثیت سے پاکستان کے مختلف بڑے بڑے شہروں کے تعلیمی ادروں میں اپنی اعلیٰ خدمات انجام دے چکے ہیں جن میں مردان اور ایبٹ آبادقابل ذکر ہیں۔ ملازمت سے سبکدش ہونے کے بعد بھی آپ نے اپنے علاقے کو ہی ترجیح دی اور وادی یارخون میں بچیوں کے لئے پہلا تعلیمی ادارے کا قیام عمل میں لایا۔ موصوف کی زندگی علم کی روشنی کو پھیلانے اورلوگوں کی خدمت کرنے میں گزری ہے اور گزر رہی ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک خاتوں کا ہاتھ ہوتا ہے میں یہاں پر اگر آپ کی شریک حیات محترمہ شیلی کائے کی گراں قدر خدمات کا ذکر نہ کروں تو بہت بڑی نا انصافی ہوگی۔جم شیلی کائے بقول نام بھی ہر لحاظ سے شیلی یعنی خوبصورت ہی ہیں آپ کا اخلاق بے مثال ہے ، آپ کا کرداربے نظیر ہے ، آپ کی قوم کے لئے خدمات شاندار ہیں، آپ کی اپنے بچوں کو دی جانے والی تربیت قابل تحسین ہے۔ شیلی کائے وادی ئیارخون کی تاریخ میں پہلی تعلیم یافتہ خاتوں ہیں۔ شیر ولی خان اسیر کی شریک حیات نے اُس زمانے میں تعلیم حاصل کی جب بچیوں کا سکول جانا معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن کائے کے والد صاحب (مرحوم) جمادار بابا ڈوکو لال ایک دور اندیش آدمی تھے جنہوں نے زمانے کی تمام ناہمواریوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی بچی کو اُس زمانے میں نہ صرف میٹرک تک تعلیم دلائی بلکہ شعبہئ طب میں ملازمت کی بھی اجازت دے دی تاکہ وہ اپنے علاقے کی خواتین کی خدمت کر سکے۔محترمہ لمبے عرصے تک صحت کے میدان میں علاقے کے لوگوں کی خدمت کرتی رہیں اور بعد میں پیشہ ئ درس و تدریس سے منسلک ہو ئیں۔
پچھلے سال صاحب موصوف جب کسی نجی کام کے سلسلے میں گلگت آئے تو ریڈیو پاکستان گلگت کی کھوار نشریات میں خواتین کے لئے خصوصی پروگرام ”جام نان جام قوم“ کی میزبان حبیبہ شمس نے آپ سے ایک خصوصی انٹر ویو کیا۔ خواتین کے خصوصی پروگرام میں صاحب موصوف کو اس لئے دعوت دی گئی تھی کہ وہ اپنی پوری زندگی خواتین کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کوشاں رہے ہیں۔ پروگرام میں آپ کی زندگی کی مصروفیات کے علاوہ خواتین کی ترقی کے حوالے سے آپ سے گفتگو ہوئی۔ آپ کے انٹرویو سے ہم نے جو نتیجہ اخذ کیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شیر ولی خان اسیرؔ صاحب چترال میں پیدا ہونے ولا وہ پہلا مصلح ہے جس نے معاشرے کی طرف سے خواتین پر عائد غیر انسانی جمود کو توڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔وہ جمود تعلیم نسواں پر بے جا پابندیوں کا تھا۔
موصوف کی نظر میں ترقی دولت کمانے سے نہیں آتی دولت چوری، ڈکیتی اور دوسروں کا حق چھیننے سے بھی آتی ہے جوکہ ترقی نہیں کہلاتی۔ اصل ترقی وہ ہے جو انسانی ذہنوں میں جنم لے اور پرورش پائے ذہن کا کھل جانا اور پھیل جانا ترقی ہے اور آپ کے مطابق انسانی ذہن کی وسعت اُس وقت ممکن ہے جب ایک دماغ وسیع گود میں پرورش پالے۔ اگر ہم یہ من غن تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کا پہلا درسگاہ ماں کی گود ہے تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر ایک ماں تعلیم یافتہ ہو تو وہ اپنے بچے کی بہتر تربیت کر سکتی ہے اپنے اس خیال کی تصدیق کے لئے موصوف نے نپولین بونا پاٹ کے مشہور قول ”آپ مجھے ایک تعلیم یافتہ ماں دے دیں میں آپ کوتعلیم یافتہ قوم دونگا“ کا بار بار تذکرہ کیا۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ ”میں یہاں پر مامتا کی محبت کی بات نہیں کرتا کیوں کہ محبت کے ضمن میں ہر ماں عظیم ہوتی ہے اور اتنی عظیم کہ اُس کے پاؤں تلے جنت ہے“ لیکن تعلیم ایک مہارت کا نام ہے جو ہر مرد اور عورت کے لئے یکساں طور پر ضروری ہے خصوصاً عورت کے لئے معیاری تعلیم اس لئے ضروری ہے کہ اُس کے اوپر پوری قوم کی تربیت کا بار گراں ہے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مرد کا مقام عورت سے افضل گردانا جاتا ہے حد یہ ہے کہ عورت صرف اور صرف گھر کی چاردیواری کے اندر مقید ہوکر گھر کو سنبھالنے، کپڑے دھونے، برتن مانجھنے، کھانہ پکانے اور بچوں کو سنبھالنے تک اپنی زندگی محدود کر چکی ہے۔یہ وہ خیالات ہیں جن کا برملا اظہار آپ کی شاعری میں بھی نظر آتے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ معاشرہ اب بھی ایسی شخصیات کو لعن طعن کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آتا ہے۔ لیکن دوسری طرف شیر ولی خان اسیرؔ اپنی دھن کا اتنا پکا کہ اپنے موقف سے واپسی کا خیال کبھی بھی اپنے ذہن میں نہیں لاتے بلکہ جواب میں کہتے ہیں کہ ؎ کیا غ کی ریسان راوے فلک مہ کیہ غم نیکی پویان اشکیراوے فلک مہ کیہ غم نیکی ۔
شیرولی خان اسیرؔ کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے آپ نے بیٹے سے بڑھ کر بیٹیوکی تربیت کا خیال رکھا ہے۔ آپ کی تین بیٹیاں ا س وقت میڈیکل ڈاکٹر ہیں جوکہ اندرون ملک اور بیرون ملک کی مشہور میڈیکل کالجوں سے سند یافتہ ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ صاحب موصوف نے اپنے تمام بچوں کو یہ نصیحت کر رکھی ہے کہ وہ تعلیم کے حصول کے لئے دنیا میں جہاں بھی جانا پڑے جائیں لیکن واپس آکر خدمت اپنی قوم، اپنے ملک اپنے علاقہ اور اپنے لوگوں کی کریں۔ بچوں کی تربیت سے متعلق ایک سوال کا آپ نے بہت خوبصور ت جواب دیتے ہوئے کہا کہ بے راہرو تو بیٹا بھی تو ہوسکتا ہے لیکن ہم نے صرف بچیوں کو اور اُن کی حرکتوں کو عزت اور بے عزتی کی اکائی سمجھ رکھا ہے۔
ہم نے بیٹوں کو بالکل بے لگام چھوڑا ہوا ہے ہم میں سے کوئی بھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کہ ہمارا بیٹا رات کو کہاں تھا، کب آیا، کب سویا، کیا کرتا ہے کیا نہیں کرتا۔ لیکن کیا مجال کہ بیٹیکے سر سے دوپٹہ ایک ساعت کے لئے بھی غلطی سے سرک جائے۔ گھر میں قیامت آتی ہے اگر بچی صبح ایک دن دیر سے اُٹھے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بچوں کی تربیت برابری کی بنیاد پر کریں ہمیں چاہئے کہ دونوں کو بے لگام نہ چھوڑیں، دونوں کی بنیادی اور معقول ضروریات اور سہولہات پورا کرنے کیساتھ ساتھ ان پر کڑی نگاہ بھی رکھی جائے۔ ہمارے معاشرے میں بعض ماں باپ ایسے بھی ہیں کہ بلا ضرورت سختی کا مظاہرہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں اور والدین میں فاصلہ پیدا ہوتا ہے فاصلہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ بچے اپنی تمام باتیں والدین سے چھپانےلگتے ہیں اور یہ فاصلہ قوموں کی بربادی کا ثبب بن جاتا ہے۔
شیر ولی خان اسیر ایک اچھے معلم، منتظم اور باپ ہونے کے علاوہ ایک بلند پایہ ادیب بھی ہیں۔ نثر اور نظم دونوں میں دست رس رکھتے ہیں۔ نثر میں چترال کے آلات موسیقی پر آپ کی کتاب گلگت اور چترال میں مشہور ہے اس کے علاوہ بیٹیوں کی عزت، اُن کی محبت، ان کی تعلیم یہاں تک کہ بیٹیوں کی زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق ایک منظوم کتاب”ژور نامہ“ کے نام سے منظر عام پر آگئی
ہے۔ چترال کی روایتی زندگی اور اس زندگی سے متعلقہ مسائل کے حوالے سے آپ کی شاعری اصلاح قوم کے حوالے سے بیش بہا سرمایہ تصور ہوتی ہے۔ شیر ولی خان اسیر کی شخصیت کا ایک بہت ہی بہترین پہلو یہ ہے کہ آپ بظاہر بہت ہی سخت لیکن بہ باطن حد درجہ نرم اور ملائم انسان ہیں۔ اپ کی اپنی مٹی سے محبت اور زبان دوست کی بہتریں مثال اپ کے ان اشعار سے خوب چھلکتی ہے۔
خوشان نو کو بوس اے مہ نادان تان چھترارو سوم تت بپو میراث ہنون دی شیر بختوارو سوم
کیانی بوئے لو دیت خور رویان سوم خور زبانہ تو بطنو زبان شیئلی نایور بطند ار و سوم
دنیا تاتینین ارمان کوروئے تو دنیو تے نو شیئلی مہنت تو کہ ارو تان کھوارو وم
آپ کی نظر میں زمانہ جہاد اور جنگ کا متقاضی ہے اب سوال یہ ہے کہ وہ کونسی جنگ ہے جسکا زمانہ ہم سے تقاضا کرتا ہے؟ اس جہاد کی تشریح یوں فرماتے ہیں
جاہیلیو غریبیو سوم جنگ کوریلیک ای وولٹی لہازیو سوم جنگ کوریلیک
یہودیو جہادیو سوم جنگ کوریلیک ہتے چھوغ شرابیو سوم جنگ کوریلیک
ہیہ جنگو بچے ڈانگ اتحاد بیلیک
نصیحت اسیر یہ پھیست یاد بیلیک
میں اکثر ان پیج میں لکھنے کے بعد یونی کوڈ میں تبدیل کرتا ہوں اس وجہ سے الفاظ غیر ضروری طور پر ایک دوسرے میں مدغم ہوتے ہیں جس سے پڑھنے میں دقت ہوتی ہے ۔۔۔ قارءین سے گزارش ہے کہ میری اس کمزوری کو کھلے دل سے معاف فرماءیں
Thanks for your great and advisable article.
Be shak hum na Aseer sb ko aisa hi paya ha. . ab bi woh college ki sargarmion ma elum ki qindeel jalarehey han. .
Dear Qamar lal,
I cannot thank you enough for this elaborate and beautiful article. Students like you are the pride of my father and he’s quite right when he says ‘I’ve earned respect, love and pleasure in the teaching field and that because of the good students that I’ve found’.
When I was a kid, I used to ask him a very illogical question (just to tease him) “Dad you could have chosen some other field than teaching keeping in mind your extraordinary school performance’ And he used to answer me very patiently ‘Yes I could definitely have earned more money in any other field but I could never have achieved the same respect through my students who make me proud every single moment’.
I’m very happy to see that students like you have proven him right. In fact, now I’m also proud of his students 🙂