گل عدن چترال
موت کی صورت کوئی بھی ہو موت بھیانک حقیقت ہے۔ ایک نارمل یعنی ذہنی طور پر صحت مند انسان نہ صرف اپنی موت سے ڈرتا ہے بلکہ دوسروں کی موت کو بھی تماشہ نہیں بناتا۔ لیکن یہ بات تو آئے روز کے واقعات اور ان واقعات پر تبصرہ نگاروں نے ثابت کردیا ہے کہ ہم مجموعی طور پر ذہنی مریض قوم ہیں۔ ہمیں اپنے علاوہ ہر دوسرا شخص عیب دار نظر آتا ہے۔ ہمارے چوبیس گھنٹے کے موضوعات دوسروں کی ذات، کردار، کسی کی شادی، کسی کا تعلقِ ناجائز ہیں۔ ہمیں اپنے علاوہ سب کا پتہ ہے۔ اپنے گلے میں کتنے سانپ اور بچھو لٹک رہے ہیں کبھی دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ کتنے شرم کی بات ہے نا کہ اللہ نے ہمیں اشرف المخلوقات کا درجہ دیا، پھر اسلام کی دولت عطا کی، لیکن ہم کتوں کی سی زندگی گزارنے پر تلے ہوئے ہیں۔
بد قسمتی سے والدین نے حلال حرام کی تمیز نہیں سکھائی تو پہلے ایک دوسرے کا جینا حرام کر رہے ہیں، پھر ایک دوسرے کو حرام موت پر مجبور کر رہے ہیں اور پھر مرنے والے کی موت کا تماشہ بھی بنا رہے ہیں۔ واہ! یہ ہے ہماری مسلمانی، ہماری تہذیب اور ہماری روایات یہی ہیں۔ ہماری ذلت کی انتہا یہ ہے کہ ہم آج بھی عورت اور مرد کے جھگڑے سے باہر نہیں آئے۔چترالی بیٹیوں کی بوری بند لاشیں آجائیں تو بیٹی اپنے قتل کی اکیلی خود ذمہ دار۔ بیٹی دن دہاڑے قتل ہوجائے تو بیٹی خود ذمہ دار۔ خودکشی کرے تو خود بیٹی قصور وار۔ سوال یہ ہے کہ اگر آج کے مرد اتنے شریف النفس ہیں تو ہماری بیٹیاں اتنی خراب کیوں ہورہی ہیں؟
اور چترال میں عورت کی زندگی اتنی مشکل کیوں ہوگئی ہے کہ وہ موت کو ہی ترجیح دیتی ہے؟ اس کا ایک جواب آج میں آپ کو دیتی ہوں۔ چترال کی کل آبادی میں گنتی کے چند مردوں کو چھوڑ کر باقی تمام مرد ذات عورت کو “انسان” ہی نہیں سمجھتے۔ ایک طرف دیکھا جائے تو ہماری بیٹیاں اتنی آزاد کہ امریکہ سے تعلیم حاصل کرنے جاتی ہیں، تو دوسری طرف چترال کی بیٹی اپنے گھر میں اپنے باپ اور بھائی کے سامنے کھل کر بولنے کو اور ہنسنے کو ترستی ہے۔ منافق مردوں کی اس اکثریت نے چترال کی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا ہے۔ ہر گھر میں ایک ایسی بیٹی ضرور ہے جو زمانۂ جاہلیت والوں کو داد دیتی ہے جنہوں نے اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی ایک بار صرف ایک بار جیتے جی مار دیا تھا۔ اگر میں غلط ہوں تو ذرا نہیں پورا سوچئے کیوں آئے روز آپ کی بیٹیاں دریائے چترال میں پناہ لے رہی ہیں۔
والدین اور اساتذہ کے کردار پر ہم بہت دفعہ بات کر چکے ہیں لیکن آج میں مسجد میں نماز پڑھانے والے ملاؤں سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ وہ معاشرے میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ جمعے کے خطبے دیتے ہیں، کبھی بہن بیٹی بیوی کے حقوق واضح کیے؟ کبھی کسی نمازی سے پوچھا کہ کیا اس کے گھر کی عورت اس سے راضی ہے؟کبھی انہوں نے اپنے پیچھے نماز پڑھنے والوں سے پوچھا ہے کہ وہ گھر میں اپنی ماں اور بہن کے ساتھ کیسے ہیں؟ اپنی بیوی بیٹی کے ساتھ کیا برتاؤ کر رہے ہیں؟ کبھی نمازیوں کو ڈرانے کی کوشش کی یہ بار بار بتا کر کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مردوں کو عورتوں کے حقوق کے معاملے میں ڈرنے کی تاکید کی ہے تو ان عورتوں میں کون سی عورتیں شامل ہیں؟
اس حدیث میں صرف ماں بہن بیوی بیٹی کے علاوہ خالہ پھوپھی، خالہ زاد بہن، چچا زاد بہن، پھوپھی زاد بہن۔۔۔ اور راہ چلتی ہوئی عورت کا حق بھی شامل ہے جس کو گھور گھور کر دیکھنے کا حق اللہ نے کسی مومن مرد کو نہیں دیا۔ اسے چھیڑنے کا حق، اس کا پیچھا کرکے اس کے موبائل نمبر تک پہنچنے، اس کو اکسانے بہکانے اور پھر رسوائی سے ڈرانے کا حق کسی مرد کو اللہ نے نہیں دیا۔تو جب اللہ نے ایک نامحرم عورت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کا حق کسی مرد کو نہیں دیا تو جب ایک عورت کی خود کشی یا قتل کے پیچھے کسی بھی بدذات مرد کا ہاتھ کسی بھی صورت ہو اور اس کے عین شاہد گواہ موجود ہوں تو آپ کیسے سارا ملبہ مرنے والی عورت پر ڈال سکتے ہیں؟؟؟؟ جب اللہ نے مرد اور عورت دونوں کے لئے سزا سنائی ہے تو تم لوگ کہاں سے آئے ہو؟ کون ہو؟ عورت کے خدا بننے والے۔۔۔ جیسے کوئی شخص نیم پاگل ہوتا ہے، ایسے ہی ہمارے چترال کے مرد نیم مسلمان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے عظیم مردوں نے عورتوں کی عزت کو صرف اپنی پسندیدہ عورت تک محدود کردیا ہے۔
لہذا اگر گھر میں ہماری ماں سے زیادہ ہمیں ہماری چچی اور تائی پسند ہیں تو ہم ماں کو گھر کی ملازمہ بنا کر چچی یا تائی کو اپنی ماں کا رتبہ دے دیتے ہیں۔ اگر بہنوں میں ایک ہمارے معیار کے مطابق ہو دوسری نہ ہو تو اس کو گھر میں کتوں کی طرح رکھتے ہیں۔ بیوی معیار کے مطابق نہ ملے تو بھابی کے گن گا گا کر بیوی کو زندہ لاش بنا دیتے ہیں۔ جو کبھی “اف” نہیں کرسکتیں اور بیٹیوں کو بھی کبھی “اف” تک نہ کرنے کی تربیت دیتے نہیں تھکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک مرد خود کشی کرے تو اس کی ذمہ دار بھی گھر کی عورت ٹھہرائی جاتی ہے اور اگر قتل کرے تو وہاں بھی عورت کے کردار پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔
ہمارے بیٹے اور بھائیوں کی ایسی ذہنیت بن چکی ہے کہ وہ جو مرضی جی میں آئے کر سکتے ہیں۔ نہ معاشرہ ان سے سوال کرے گا نہ خدا کی عدالت میں وہ ماں باپ کی رسوائی کا سبب بنیں گے۔غریب کی بیٹی بے پردہ گھومے تو ماں باپ ذلیل۔ بیٹا آوارہ نکلے تو کوئی قیامت نہیں۔ غریب کی بیٹی پردے میں رہ کر گھر سے باہر ملازمت کرے تو اس کا کردار خراب۔ بیٹے کھلے عام شراب نوشی کرتے پھریں، ڈوم میراثی بن جائیں، خاندان کی عزت پر کوئی حرف نہیں آتا۔اور سب سے مضحکہ خیز صورت حال جو اس وقت چترال کی بیٹیوں کی بربادی کا سبب بنی ہے، پردے اور چار دیواری کو لے کر وہ ہے ہمارے عظیم بھائیوں کا متضاد رویہ۔ ایک طرف چترال کی بیٹی امریکہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر آتی ہے، باپ اور بھائی کے ساتھ بے پردہ تصویر سماجی رابطوں کی ویب گاہ پر ڈالتی ہے اور ہر طرف سے ہر عمر ہر طبقے کے لوگ اس کی واہ واہ کرنے دور دور سے مکھیوں کی طرح اس کی پوسٹ پر پہنچتے ہیں، اس کو چترال کا فخر قرار دیتے ہیں۔تو دوسری طرف ایک کم تعلیم یافتہ کسی متوسط گھرانے کی بیٹی بے پردگی کا مظاہرہ کرے تو وہ قتل کی حقدار ٹھہرائی جاتی ہے۔
قرآن کی کس آیت میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر یا مقابلے کے امتحان میں کامیاب افسر یا کوئی بھی بڑا عہدہ پانے کے بعد عورت بے پردہ گھومے تو وہ بے حیا نہیں کہلائی جائے گی؟؟؟؟اگر بے پردگی، بے حیائی ہے تو ہر عورت چاہے امیر کی بیٹی ہو یا غریب کی، بڑے خاندان کی ہو یا چھوٹے خاندان کی، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو یا دس جماعت پاس، وہ بے حیا ہی کہلائے گی۔ لعنت ہے ان چمچوں پر جنہوں نے دین کو مذاق بنایا ہے۔۔۔ اور خود کو مومن مرد سمجھتے ہیں۔اور ایک آخری بات: اللہ نے نماز اور پردہ دونوں کا ایک جیسا حکم دیا ہے اور مرد و عورت دونوں کے لیے نماز اور پردے کا ایک جیسا ہی حکم ہے۔ لیکن افسوس بے حیائی کا سبب بننے والی دوپٹہ کے بغیر بیٹی سب کو نظر آرہی ہے مگر نیکر پہن کر گھومنے والا جوان بیٹا کسی ماں یا باپ کی غیرت کو نہیں جگا رہا۔رشتے داروں اور پڑوسیوں کے گھروں میں بغیر اجازت داخل ہونا، نامحرم رشتے دار عورتوں سے مصافحہ کرنے کو ضروری سمجھنا۔۔۔ گھر گھر میں بہن بھائیوں کے جوان بچوں کی مخلوط محفلیں، شادی بیاہ میں ناچ گانے کی تقریب منعقد کروانا اور نامحرم میت کا چہرہ ہر ایرے غیرے کو دکھانا۔اور سب سے مضحکہ خیز چیز: جن کو قتل ہونے کے بعد قتل کا حق دار ٹھہراتے ہیں، ان کو گمراہ دیکھ کر انہیں مزید گمراہ کرنے میں سب سے آگے وہی ہیں پسند، تعریف، اشتراک کرنے والے چترال کے عظیم مرد حضرات چترال کی عزت اور ناموس پر، چترال کی غیرت پر دھبہ ہیں۔۔۔ دھبہ۔چترال میں فحاشی کے سب سے بڑے اسباب یہی مرد ہیں، کوئی مانے یا نہ مانے۔ لہذا عورتوں کے خدائی فوجداری سے تھوڑا وقت نکال کر اپنے گندے گریبان میں جھانکیں اور اپنے انجام اور آخرت کی فکر کریں۔
کسی بیٹی کی موت کو تماشہ بنانے سے گریز کریں اور یاد رکھیں عزتیں صرف بیٹیوں سے خراب نہیں ہوتیں بلکہ بیٹے بھی رسوائی، بدنامی اور ذلت کا سبب بن سکتے ہیں۔ دنیا میں نہ سہی، روزِ قیامت ہی سہی۔—کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے مزید مختصر پیراگراف میں تقسیم کروں تاکہ پڑھنا اور بھی آسان ہوجائے؟

