Prince Karim Aga Khan

ایک عہد اور ایک باب

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان چہارم کی اسوان مصر میں تدفین کے ساتھ ایک عہد اور ایک باب کی تکمیل ہوئی ہے۔ آپ اسماعیلیہ فرقہ کے روحانی پیشوا ہونے کے ساتھ دنیا کی با اثر شخصیات میں شما ر ہوتے تھے۔ اقوام متحدہ کے ممبر ملکوں میں آپ کو سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت کا اعلیٰ رتبہ اور پروٹوکول ملتا تھا۔ آپ کے پاس ویٹی کن سٹی جیسی کوئی حکومت نہیں تھی اس کے باوجود کروڑوں لوگوں کے دلوں پر ان کا راج تھا۔ اب یہ راجد ھانی آپ کے بڑے بیٹے ہز ہائی نس پرنس رحیم آغا خان پنجم کے حصے میں آگئی ہے۔

آپ کی شخصیت کئی جہتیں رکھتی تھی۔ میرے حلقہ احباب میں اس کے جس پہلو کا ذکر فخر سے ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے خاندان کی صورت میں اللہ پاک نے خاتم النبئین محمد مصطفی ﷺ کی اولاد کو ہجری سن کے 1446سالوں کے بعد بھی دنیا میں بادشاہ اور حکمران کی عزت دے کر سورہ انشراح اور سورہ کوثر میں کئے گئے دونوں وعدوں کو پورا کرکے دکھایا ہے۔ ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ خانوا دہ نبوت مصطفوی کے شہزادے کو دنیا آج بھی بادشاہ تسلیم کرتی ہے اور بادشاہوں کا پروٹوکول دیتی ہے۔ علا مہ اقبال نے اس طرح کے مظاہر فطرت کو چراغ ۔مصطفوی کا شرار بولہبی پر غلبہ قرار دیا ہے اور اس میں دائمی صداقت کا سرنہاں مو جود ہے ہزہائی نس کے خاندان کی تاریخ ڈیڑھ ہزار سالوں پر محیط ہے اس کا نام ہا شمی اور فاطمی بھی ہے انیسویں صدی میں ایران کے قاچار باد شاہ ہوں نے آپ کے پڑدادا آغا حسن علی شاہ کو آغا خان کا خطاب دیا وہ اس وقت کرمان کے گورنر تھے ایران میں آغا کو آقا لکھا جاتا ہے اور آغا پڑھا جاتا ہے۔ ایرانی ذولفقار کو بھی ذولفغار پڑھتے ہیں ان کا بیٹا آغا علی شاہ آغا خان دوم تھے اور پوتا سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم تھے۔

ایران سے آغا خان اول نے ہندوستان آکر ممبئی میں سکو نت اختیار کی تھی ، آغا خان سوم نے بر طانیہ میں تعلیم حاصل کی تھی اس لئے انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے تعلیمی سہو لیات کی فراہمی میں سر سید احمد خان کے ساتھ مل کر علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کے قیام میں حصہ لیا۔ نواب محسن الملک اور نواب وقار الملک کے ساتھ مل کر ہندوستان کے مسلمانوں کی پہلی سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام میں سماجی اور مالی تعاون فراہم کیا۔ علا مہ اقبال اور مولانا محمد علی جو ہر کے ساتھ مل کر قیام پاکستان کے لئے انگریزوں کے ساتھ مذاکرات کئے گول میزکانفر نسوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ قیام پا کستان کے بعد کاروبار مملکت کو چلا نے کے لئے 50لا کھ روپے کا نقد عطیہ دیا۔

ملک فیروز خان نون کی حکومت میں سلطنت اومان کے ساتھ گوادر کے ساحلی شہر کی ملکیت حا صل کرنے کا معاہدہ ہوا تو کم پن سے شن یعنی ازالۃ مال کے طور پر بڑی رقم کا مطالبہ کیا گیا۔ آغا خان سوم نے رقم ادا کر کے گوادر کی ملکیت کے معاہدے کو عملی جامہ پہنایا۔ سرسلطان محمد شاہ کے اباو اجداد کا پیشہ ہیرے جواہرات کے کا روبار سے وابستہ تھا۔ آغا خان سوم نے کاروبار کا دائرہ غیر منقولہ جا ئیداد اور گھوڑ دوڑ تک وسیع کیا۔

پرنس کریم آغا خان چہارم نے کاروبار کو مزید وسعت دے کر ہوٹل انڈسٹری میں بھی نا م کما یا، سما جی ترقی کے لئے عطیات جمع کرنے والے عالمی اداروں کے ساتھ تعلقات استوار کر کے افریقہ، امریکہ، یورپ اور ایشیا کے چار براعظموں کے اندر 27مما لک میں تعلیم، صحت، آبنو شی اور اسلا می ورثے کے منصوبوں کے لئے مالی وسائل فراہم کئے۔ آپ کے قائم کر دہ ادارے گذشتہ نصف صدی کے تجربات کے بعد مالی طور پر خود کفیل ہوچکے ہیں۔ نظم و نسق اور کام کے معیار کو دیکھ کر آغاخان سکول اور آغا خان ہسپتال دنیا کے بہترین اداروں میں شمار کئے جا تے ہیں۔ یوں آپ نے اپنے جانشینوں کے لئے ایسا ورثہ چھوڑا ہے جس کا مالی اور انتظامی ڈھا نچہ پائیدار خطوط پر استورا ہے۔ اس کامیابی میں مالی وسائل سے زیادہ نظم و نسق اور شفافیت کا ہاتھ ہے۔ آپ کی جدائی سے ایک عہد اور ایک باب کی تکمیل ہوئی کہ ثبات اک تغیر کو ہے زما نے میں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *