Lowari tunnel toll tax

لواری سرنگ سے گزرنے پر ٹیکس

چترال پاکستان کی انتہائی شمال میں ایک پسماندہ علاقہ ہے۔ یہ ایک ریاست تھی جو اپنی مرضی سے پاکستان کے ساتھ سپنا الحاق کر چکا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک مختلف میدانوں میں چترالی عوام اور ان کے حقوق کا استحصال ہو رہا ہے۔ ابھی تک چترال کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں اور یہاں ملکی اداروں کی طرف سے جو سڑکیں بنانے کا محکمہ کام کر رہا ہے وہ سڑک تعمیر بھی کرے تو اس علاقے کے قدر قدرتی افات سیلاب برف کے تودے پھسلنے اور پتھر لڑکنے کے عمل کو خاطر میں لائے بغیر بس سامنے سڑک بنا کر چلے جارہاہے سڑک کے آر پار پانی کی گزرگاہیں نہیں بنائی جاتیں اور نہ ہی حفاظتی دیوار اور پرنالے بنائے جاتے ہیں جس سے ملبہ آ کر سڑک پر بیٹھ جاتا ہے اور بارش کا پانی آنے کی صورت میں چونکہ گزرگاہ سڑک کے نیچے سے نہیں گزری ہوتی اس لیے وہ پانی سڑک کے اوپر ا کے سڑک کو کاٹ کر نکل جاتا ہے۔ یہاں تمام علاقوں کے تقریبا سڑکیں ٹوٹی پھوٹی حالت میں رہتی ہیں اور بعض جگہوں تک سڑکوں کی رسائی ہی موجود ہی نہیں ہے اور نہ ابھی تک اہم سڑکیں پختہ کی گئی ہیں۔

لوار ی سرنگ کا منصوبہ وزیر ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا لیکن اس پر خرچے کا اندازہ کر کے پھر بند کر دیا گیا تھا۔ بعد میں صدر پرویز مشرف نے اس سرنگ کو مکمل کرایا اس وجہ سے علاقے کے لوگوں کو ایک بڑی سہولت مل گئی۔ اب ایک طرف تو سڑکیں پہلے سے خراب حالت میں ہیں تو دوسری طرف ملک کے زوال پذیر معیشت کو سنبھالنے کے لیے غریبوں کو ہی لوٹنے اور نشانہ بنانے کے نت نئے طریقے ایجاد کیے جا رہے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ ایسے منصوبے کی تیاری ہو رہی ہے کہ ٹول پلازہ کے طرز پر لواری سرنگ سے گزرنے والے ہر گاڑی پر لگان عائد کیا جائے گا، یہ ٹیکس گاڑی کی جسامت اور اس کی نوعیت کے حساب سے ہوگا۔ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے کہا جا رہا ہے کہ یہ بہت معمولی ہوگا اور یہی پاکستان کے صاحب اقتدار لوگوں کا طریقہ کار رہا ہے کہ مہینوں کے حساب سے پھر اس کو بڑھا چڑھا کر لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیتے ہیں۔ یہی واحد ایک سہولت اس علاقے کے لوگوں کو دی گئی تھی اب اس میں بھی کیڑے نکال کر اس کو پیچیدہ کیا جا رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی ایسا دقیقہ فروگزارشت نہیں کیا جا رہا کہ غریبوں پر عرصہ حیات تنگ کر دی جائے۔ 

معلوم ہونا چاہیے کہ یہ چترال کی وادی کئی چھوٹی وادیوں پر مشتمل ہے جہاں سے چھوٹے دریا اگر دریائے چترال میں مل جاتے ہیں اور یہ وادی اگے کابل کی طرف کنڑ کے علاقے میں داخل ہوتی ہے جو پہلے چترال کا ہی حصہ تھا اور پھر اگے جا کر ننگرہار کے علاقے میں کابل کی وادی سے مل جاتی ہے جہاں مغرب سے مشرق کی طرف بہتا ہوا دریا کابل آکر اس سے ملتا ہے اور یہ دو دریا اپس میں ملنے کے بعد ایک دریا کی شکل میں پاکستان کے علاقے مہمند میں داخل ہو جاتے ہیں۔ خیبر پختون خواہ کے پاکستانی علاقے سے چترال میں مختلف پہاڑی دروں کے ذریعے داخلہ ممکن ہے اور ان میں اہم راستہ لواری کا رہا ہے جو چترال کو دیر سے ملاتا ہے اس میں سہولت کے لیے یہی ایک سرنگ نکالا گیا ہے جو کہ ایک مصنوعی اور اہم مختصر راستہ ہے۔ اب اس راستے سے گزرنے والے چترال کے باشندوں پر لگان عائد کیا جائے گا اور فی گاڑی کے حساب سے پیسے وصول کیے جائیں گے تو یہ پاکستانی حکومت کی انتہائی کم ظرفی اور علاقے کے لوگوں سے زیادتی ہے۔

محمد الیاس احمد 

گولدور چترال 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest