Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

چترال کی طالبات کے اسکالرشپ فنڈز کی عدم تقسیم پر ڈپٹی اسپیکر کو نوٹس لینا چاہیے

رپورٹ خیروالدین شادانی

خیبرپختونخوا اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر محترمہ ثریا بی بی کو خواتین کاکس کی چیئرپرسن مقرر کر دیا گیا ہے۔ اس فورم کا مقصد خواتین کے حقوق کے تحفظ اور پالیسی سازی میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانا ہے۔ اس تقرری سے خاص طور پر خیبرپختونخوا کی خواتین کو درپیش مسائل کو اسمبلی میں بہتر طریقے سے اجاگر کیا جا سکے گا، جبکہ چترالی خواتین کے لیے بھی یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2022-2023 کی رپورٹ کے مطابق، چترال لوئر میں طالبات کے اسکالرشپ کے لیے مختص 12.09 ملین روپے تقسیم نہیں کیے گئے، جس کے نتیجے میں نہ صرف مستحق طالبات کو ان کے حق سے محروم رکھا گیا بلکہ سرکاری فنڈز بھی بلاک ہو گئے۔ رپورٹ کے مطابق، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (خواتین) چترال نے یہ رقم 22 جون 2022 کو جی پی او چترال کے پوسٹ ماسٹر کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دی تھی تاکہ مالی سال 2021-22 کے دوران طالبات میں تقسیم کی جا سکے، مگر یہ رقم 25 اگست 2022 تک طالبات میں تقسیم نہیں کی گئی۔ اس تاخیر کی کوئی معقول وجہ بھی فراہم نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے ایک طرف طالبات کو ان کے تعلیمی وظائف سے محروم رکھا گیا اور دوسری طرف حکومت کے فنڈز بلاوجہ روکے گئے۔

رپورٹ کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پوسٹ آفس نے یہ رقم کسی مخصوص بینک اکاؤنٹ میں منتقل کر کے اس پر منافع حاصل کرنے کے لیے روکی رکھی۔ مزید برآں مقامی تعلیمی افسران نے بھی اس غیر معمولی تاخیر کے بارے میں کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کی اور نہ ہی پوسٹ آفس سے وضاحت طلب کی۔ یہ تاخیر واضح طور پر قوانین کی خلاف ورزی ہے اور مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔

جب یہ معاملہ اگست 2022 میں سامنے آیا، تو متعلقہ حکام نے دعویٰ کیا کہ اسکالرشپ کی دوسری قسط کا چیک 30 جون 2022 کو پوسٹ آفس میں جمع کروا دیا گیا تھا، مگر ابھی تک یہ رقم تقسیم نہیں کی گئی۔ اسی معاملے پر ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا، مگر رپورٹ کے حتمی ہونے تک یہ اجلاس بھی منعقد نہیں ہو سکا۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں واضح طور پر حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ وضاحت پیش کریں کہ یہ اسکالرشپ فنڈز کیوں تقسیم نہیں کیے گئے۔

ثریا بی بی کو بطور چیئرپرسن خواتین کاکس، اس معاملے کو فوری طور پر خیبرپختونخوا اسمبلی میں اٹھانا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ یہ 12.09 ملین روپے کے اسکالرشپ فنڈز فوری طور پر مستحق طالبات کو دیے جائیں۔ اس کے علاوہ خیبرپختونخوا حکومت کو چترال میں خواتین کی تعلیم کے فروغ کے لیے مزید اسکالرشپ پروگرامز متعارف کرانے چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ طالبات اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں۔

چترال جیسے دور افتادہ علاقوں میں خواتین کے لیے معاشی خودمختاری ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت کو ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز قائم کرنے چاہئیں جہاں خواتین کو ہنر سکھایا جا سکے، جیسے سلائی، کڑھائی، قالین بافی، اور دیگر دستکاری کے شعبے۔ اس کے علاوہ خواتین کے تیار کردہ سامان کو ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹ تک پہنچانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

دوسری جانب، خواتین کی صحت کے حوالے سے بھی سنگین مسائل موجود ہیں۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق، چترال کے صحت مراکز میں 56 ڈاکٹرز اور 18 پیرا میڈیکل اسٹاف کی آسامیاں خالی ہیں، جس کی وجہ سے خواتین کو مناسب طبی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ سوریا بی بی کو چاہیے کہ وہ صحت کے ان مسائل کو بھی اسمبلی میں اجاگر کریں اور حکومت سے مطالبہ کریں کہ چترال کے اسپتالوں میں طبی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔

ثریا بی بی کی بطور چیئرپرسن تقرری خیبرپختونخوا کی خواتین کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ان کے پاس موقع ہے کہ وہ خواتین کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدامات کریں، خاص طور پر چترالی خواتین کے لیے، جو جغرافیائی اور سماجی رکاوٹوں کی وجہ سے ترقی کے عمل میں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ اگر ان تجاویز پر عمل کیا جائے تو یہ خیبرپختونخوا میں خواتین کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔

ڈپٹی اسپیکر محترمہ ثریا بی بی کو اس مسئلے پر فوری نوٹس لینا چاہیے تاکہ چترال کی طالبات کو ان کے حق سے محروم نہ رکھا جائے اور اس قسم کی مالی بے ضابطگیوں کو  مستقبل میں روکا جا سکے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں خواتین کے مسائل کے حل کے لیے یہ ایک سنجیدہ موقع ہے، جسے ضائع نہیں ہونا چاہیے۔

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!