روم ایک دن میں نہیں بنا
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
روم اپنی قدامت کے لحاظ سے یورپ کا پہلا جبکہ آبادی کے لحاظ سے یورپ کا تیسرا بڑا شہر ہے اس کی آبادی 43لاکھ ہے ان میں سے 28لاکھ کی آبادی کمیون آف روما میں رہتی ہے باقی آبادی روم کے میٹروپولیٹن میں اباد ہے۔ ویٹی کن سٹی ایک خود مختار ملک ہے جو روم شہر کے اندر کمیون میں واقع ہے کمیون سے باہر کلی مضافاتی آبادی میٹرو پولیٹن کہلا تی ہے یہ آبادی رقبےکے لحاظ سے کمیون کے دگنے کے برابر ہے۔
انگریزی میں مشہور مقولہ ہے کہ روم ایک دن میں نہیں بنا تھا حفیظ جالندھری کہتا ہے ’’بستی بسانا کھیل نہیں، بستے بستے بستی ہے۔‘‘ آٹھویں صدی قبل ازمسیح (753 ق۔م) میں شہر کی بنیاد رکھی گئی اس شہر نے رومی سلطنت کے دارلخلا فہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا اس نے زند گی کے کئی نشیب و فراز دیکھے، اطالوی ریاست اورقومیت بھی ترک اور ایران کی طرح اپنے ما ضی پر فخر کرتی ہے۔ اطالوی عربوں کی طرح اپنی زبان کو باعث افتخار سمجھتے ہیں روم کے شہر میں تمام نشانات اور سائن بورڈ اطالوی زبان میں ہیں انگریزی پڑھنے کو سیاح ترستے ہیں۔ ہمارے دیہات میں عوام ہر گورے کو انگریز سمجھتے ہیں لیکن مغربی ممالک میں صرف انگلینڈ کی چھوٹی سی آبادی انگریز کہلاتی ہے اس کے سوا ہر ملک کی اپنی قومیت اور اپنی شناخت ہے روم کا شہر پہاڑوں کا شہر بھی کہلا تا ہے کیونکہ اس کے دواطراف میں ڈولو مائیٹ کا سلسلہ کوہ واقع ہے جس کی کئی مشہور چوٹیاں ہیں ساتھ ہی روم کی ساحل بھی اپنی رعنائیوں کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے بحراحمر کی ساحل پر جگہ جگہ پل بناکر سیاحوں کے لئے سمندر کی سیر کے لئے سہولت دی گئی ہے۔
خواجہ حافظ نے کہا تھا برتربت ماچو بگذری ہمت خواہ، زیارت گہ رند ان جہاں خوا ہد بود، یہاں بھی سارے جہاں کے آزاد خیال نوجواں سارا دن یکجا رہتے ہیں ساحل سمندر کی فضا اتنی رومان پر ور ہوتی ہے کہ بے ساختہ اختر شیرانی یاد آتا ہے اور گنگنانے کو جی چاہتا ہے ’’میں ارزو ئے جاں لکھوں یا جان ِآرزو‘‘ ریت پر چلتے ہوئے لہروں کا سامنا ہوتا ہے تو مونگے اور سیپیوں کے خو ب صورت خول ہاتھ آتے ہیں۔
کھوار کا بے بدل شاعر امین الرحمن چُغتائی کہتا ہے ’’تہ کی دُور دانوطلب شیر موخہ بہہ کورے چکستو‘‘ فراز کا بے مثال شعر ہے ’’اجڑ ے ہوئے لو گوں میں ڈھونڈ لے وفا کے موتی یہ خزا نے تجھے ممکن ہے خرا بوں میں ملیں‘‘ اٹلی کے جس وسیع ترعلا قے میں روم کا شہر واقع ہے اس کو لازیو کہا جاتا ہے ساحل سمندر پر اٹلی کے چار ملنگ الگ الگ مقامات میں گیٹار یا بانسری پر نغمے بکھیر تے اور پیسے سمیٹتے ہوئے ملے، بنگلہ دیش، کشمیر اور بھارت کے چند شہری وہاں دکانیں سجائے بیٹھے تھے ان سے علیک سلیک ہوئی تعارف کا موقع نہیں تھا شام ہونے میں تھوڑا وقت رہ گیا تھا ایک جہاز تھوڑے فاصلے پر لنگر انداز ہوا تھا ایک اور جہاز دور سے روشنیاں بکھیر تے ہوئے سمندر کے سینے کو چیرتا ہماری طرف آرہا تھا ہم نے واپسی پر باز اروں سے گذرتے ہوئے ایشیائی تاجروں کی کئی دکانیں دیکھیں ایک دکان سے تھوڑی بہت خریداری کی۔
فاروق نے بتایا کہ روم میں پشاور کے ایک تاجرنے حلا ل خوراک کی دکانوں کا چین کھولا ہوا ہے جہاں حلا ل چکن دستیاب ہے بلکہ چین کا نام ہی چکن کے حوالے سے رکھا گیا ہے میں نے کہا کسی دن پشاور کے باسی سے تفصیلی ملا قات کرکے ’’دل پشوری‘‘ کرینگے۔ جب دوستوں کو میرے روم آنے کا پتہ لگا تو انہوں نے فرمائشوں کے طومار باندھے ان فرمائشوں کا تعلق بازاری تحاءف سے نہیں علمی آگاہی سے تھا کسی نے لکھا یورپ کی نشاتہ ثانیہ پر لکھو، کسی نے لقمہ دیا آپ مکیاولی کے دیس میں پھیر رہے ہیں اس کی کتاب دی پرنس کا پس منظر بیان کرو، کسی نے فرمائش کی کہ لیونارڈ و دی وینچی اور مونا لیزاپر کچھ لکھو، کسی نے رائے دی کہ عہد وسطی کی یورپی تجارت کو موضوع بناءو، میں نے سوچا ان فرمائشوں کو پورا کرنے کی جگہ روم نہیں فلورینس ہے۔