قومی مکالمہ
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
وطن عزیز پاکستان کو درپیش حالات اور آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے سنجیدہ حلقوں کی طرف سے قومی مکالمہ کے نام سے وسیع تر اتحاد اور اتفاق کی تجویز اخبارات اور ٹیلی وژن کے ذریعے پیش کی گئی ہے لیکن وطن کے اندر مچھلی بازار یا نقارخانے کا شوروغوغا برپا ہے اس لئے کوئی بھی شخص کسی سنجیدہ بات کو سننے پر آمادہ نہیں 25کروڑ عوام اور مٹھی بھر خواص کوجب بھی کچھ کہنے کاموقع ملتا ہے۔ ان میں ہرایک مایوسی اور نا امیدی کی بات کرتا ہے۔
مثلاً کچھ نہیں ہوگا یہ ملک نہیں سدھرے گا،زوال کی طرف سفر کوروکنا محال ہے،سرنہ کھپاءو،اپنا کام کرو، ملک اور قوم کا خداحافظ ،یہ ایسی باتیں ہیں جو خود زوال کی علامتیں ہیں مایوسی کفر ہے مسلمان اللہ پاک کے رحم وکرم سے کبھی مایوس نہیں ہوتا،اللہ پاک کا کرم ہروقت اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہ مشکلات اور بھنورسے اپنے بندوں کونکالتا ہے ۔ ہمارے سرپراس وقت جوکالے بادل منڈلارہے ہیں یہ وہی بادل ہیں جو 1971 میں وطن کی فضاوں پرگردش کررہے تھے بادلوں کامنبع بھی وہی جگہ ہے یعنی بحرہندکی طرف سے آنے والے بادل ہیں ان بادلوں کے اندر جو عذاب نظرآرہا ہے وہ بھی نہایت خوف ناک اور بھیانک عذاب ہے اس عذاب سے خود کواور اپنے ملک وقوم کو بچانے کا راستہ صرف قومی مکالمہ ہے۔ قومی مکالمہ کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے
یونیورسٹی کا آڈیٹوریم سامعین سے بھرا ہواتھا پانچ ہزار کا مجمع تھاغیر ملکی مہمان نے سیاسی طرز فکر اورمفاہمت پرخطاب کیا اور آخر میں سوالات پوچھنے کی دعوت دی ایک پاکستانی صحافی نے مہمان مقرر سے پوچھا کیا آپ کے نقطہ نظر سے پاکستان میں بھی ان اصولوں پر سیاسی طرز فکراپنا کر مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہےمقررنے صحافی سے پوچھا آپ کو پاکستانیوں کی قابلیت پرکیوں شک ہورہا ہے
صحافی نے کہا ہمارے ملک میں سیاست کی بنیاد نظریات پرنہیں ،دولت اور طاقت پرہے،حکومت میں آنے کے لئے نظریات کا پرچار نہیں ہوتا دولت اور طاقت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ مہمان نے پوچھا کیا اس ملک میں دائیں اور بائیں بازو کے نظریات والے سیاست اور حکومت میں نہیں ہوتے۔ صحافی نے کہا بائیں بازو کاکوئی تصور نہیں صرف دایاں بازو ہے جو جاگیرداری ،سرمایہ داری اور اجارہ داری پریقین رکھتا ہے،مہمان نے سرد آہ بھرتے ہوئے پانی مانگا،پانی کا گھونٹ لینے کے بعد اُس نے تین باتیں کہہ کراپنی تقریر ختم کی ان کی پہلی بات یہ تھی کہ حکومت اور سیاست کے حصہ داروں کوملک اور قوم کے ساتھ وفادار ہونا چاہیئے اگرملک اورقوم کے ساتھ وفاداری ہوگی تو سیاسی مفاہمت کے لئے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا مشکل نہیں ہوگا دوسری بات یہ تھی کہ حزب اقتدار اورحزب اختلاف کے ہرلیڈر کاماضی کرپشن سے پاک ہونا چاہیئے جب ماضی کرپشن سے پاک ہوگا توحکومت ہاتھ سے جانے کا خوف ختم ہوجائے گا۔ ناروے،سویڈن، برطانیہ اورجرمنی کی طرح قوم کا ہرلیڈر ہروقت حکومت کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوگا۔ اُس کے مالی مفادات سرکاری خزانے سے وابستہ نہیں ہونگے اُس کاماضی جرائم پیشہ لوگوں میں نہیں گذرا ہوگا، اس تین نکاتی مفاہمتی ایجنڈے کے آئینے میں ہرلیڈر کو اپنا چہرہ دیکھنا چاہیئے جس کا ریکارڈ جرائم سے پاک ہوگا اُس کومفاہمت سے خوف نہیں ہوگا۔
ہمارے پاک وطن کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے جمہوریت کاتجربہ ابھی تک نہیں کیا،ہم نے سول آمریت اور سرکاری بادشاہت کے دونظاموں کاباربار تجربہ کیا ہے دونوں نظاموں سے میں مایوسی ہوئی ہے۔ اس مایوسی کے نتیجے میں عدالتوں سے اعتماداُٹھ گیاہے الیکشن کمیشن سے اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ قومی مکالمہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے سیاست اور حکومت کے حصہ داروں کا آپس میں اعتماد کا رشتہ دوبارہ بحال ہوگا،قومی اداروں پرقوم کا اعتماد پھر سے بحال ہوگا اور قوموں کی برادری میں ہم ایک بار پھر فخر کے ساتھ اپنا سر بلند کرکے آگے بڑھ سکین گے۔