صوباٸی اسمبلی کے لیے پی پی پی کا موزون امیدوار احمد محمد علی
ظفر احمد
پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنے قیام کے وقت سے لیکر اب تک چترال کی سیاست میں ایک منفرد مقام حاصل رہی ہے جس کے نظریاتی کارکن اب بھی گھر گھر میں موجود ہیں۔ حالیہ دنوں پیپلز پارٹی کو الیکشن سے ٹھیک پہلے بڑا دھچکا اس وقت لگا جب اَپر اور لوٸر چترال سے صوباٸی اسمبلی کے لیے پارٹی کے منظور کردہ دونوں امیدوار حاجی غلام محمد اور شہزادہ خالد پروز اچانک پارٹی تبدیل کرکے جلسوں کی صورت میں پرویز خٹک گروپ میں شامل ہو گٸے۔
دونوں سیاستدان پیپلز پارٹی کے دیرینہ نظریاتی کارکن ہونے کے بجاٸے ذاتی وٶٹ بینک کے حامل ایلیکٹیبلز تھے جو ٹکٹوں کی شرط پر پارٹی جواٸن کیے تھے۔ ایلیکٹیبلز کی پارٹی چھوڑنے کے بعد پورے ضلعے میں پارٹی بکھر جانے تک کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ لیکن پارٹی چیٸرمن بلاول بھٹو کے دور چترال کے بعد پیپلز پارٹی کے نظریاتی وٶٹرز میں پھر سے روایتی جوش و جذبہ بحال ہوتا ہوا دکھاٸی دے رہا ہے۔ بلاول بھٹو کے دورے کے موقع پر ورکرز کنوشن اچانک بڑے جلسے کی شکل اختیار کر گیا، ایسے میں پیپلز پارٹی اگر اَپر چترال سے کسی روایتی ایلیکٹیبل کی بجاٸے صوباٸی اسمبلی کی نشت کے لیے کسی نوجوان نظریاتی کارکن کو میدان میں اتارتی ہے تو پاکستان تحریک انصاف اور ایلیکٹیبل حاجی غلام محمد کو ٹف ٹاٸم دے سکتی ہے۔
جہان تک صوباٸی اسمبلی کی نشست کے لیےاَپر چترال سے پی پی کے امیدواروں کی بات کی جاٸے تو سابق ایم پی اے سید سردار حسین مضبوط امیدوار تھے لیکن باوثوق زراٸع کے مطابق سردار حسین صاحب الیکشن کانٹسٹ نہیں کرینگے جبکہ ضلعی صدر امیر اللہ صاحب بھی الیکشن کانٹسٹ نہیں کرنے والے ہیں۔ ابھی تک جو نام سامنے آرہے ان میں کوثر علی شاہ بونی، یوسف ھارون چرون، شیر حسین زید اور ایڈوکیٹ سراج علی خان کھوز کے نام سامنے آ رہے ہیں۔ دوسری طرف دیگر جماعتوں کے مضبوط امیدواروں میں خٹک گروپ کے حاجی غلام محمد اور تحریک انصاف کے نوجوان رہنما محمد ھارون شامل ہیں۔ ایسے میں پیپلز پارٹی کو اگر مقابلے کی دوڑ میں اِن رہنا ہے تو ایسے امیدوار کو سامنے لانا ہو گا جو پارٹی کے دیرینہ کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ موڑکھو اور تورکھو کے علاوہ بالخصوص یارخون اور لاسپور کے نوجوان وٶٹرز کو اپنی طرف راغب کر سکے۔ اس تناظر میں دیکھا جاٸے تو ایڈوکیٹ سراج علی خان بونی ریجن سے آگے پرواک سے بروغل تک اور سارغوز سے لاسپور ویلی تک کے وٶٹرز کو اپنی طرف راغب کر سکتے ہیں جو اس احساس محرومی میں مبتلا ہیں کہ کسی پارٹی نے ان کے ریجن میں کسی کو ابھی تک ٹکٹ کا اہل نہیں سمجھا ہے۔
ایڈوکیٹ سراج علی خان بلاشبہ پیپلز پارٹی کے دیرینہ نظریاتی کارکن ہیں جو کم عمری میں شہزادہ اسکندرالملک جیسے سیاستدان سے الیکشن جیت کر ناظم بھی رہ چکے ہیں البتہ اس کے بعد ایڈوکیٹ صاحب پیشہ ورانہ مصروفیت اور بونی میں مستقل مکین ہونے کی وجہ سے علاقے کی سیاست میں زیادہ متحرک نہیں رہے ہیں۔
ان حالات کے پیش نظر پیپلز پارٹی کے لیے سب سے موزون امیدوار نوجوان کارکن احمد محمد علی ہیں جو زمانہ طالب علمی سے پیپلز پارٹی میں متحرک رہے ہیں، جو گزشتہ چند سالوں سے بحثیت ویلج چٸیرمین بھی علاقے کے مساٸل پیش کرنے میں بھی متحرک رہے ہیں جبکہ نوجوان ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کو بھی چیلنج دے سکتا ہے، اسی طرح نسبتاََ ٹکٹ دینے کے حوالے محروم ریجن سے تعلق رکھنے اور برادری اور اسمعیلی وٶٹرز کو اٹریکٹ کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے ایلیکٹیبل حاجی غلام محمد سے بھی کانٹے دار مقابلہ کر سکتا ہے۔
برادری اور مسلکی بنیادوں پر وٶٹنگ کو اچھا نہیں کہا جا سکتا لیکن چترالی سیاست میں دونوں عناصر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نوجوان محمد علی دونوں طرح کے وٶٹرز کو اپنی طرف مبذول کر سکتا ہے۔ بیار ریجن کے علاوہ موڑکھو اور تورکھو میں ایوبین وٶٹرز بھی انھیں وٶٹ دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ محمد علی کے ماموں سابق ایم پی اے زین العابدین اور ان کی فیملی بھی پیپلز پارٹی چترال میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں جو حالیہ الیکشن میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔
ان زمینی حقاٸق کو مدنظر رکھتے ہوٸے پیپلز پارٹی اگر محمد علی کو صوباٸی اسمبلی کی نشست کے لیے میدان میں اتارتی ہے تو تحریک انصاف اور حاجی غلام محمد کے ساتھ کانٹے دار مقابلہ کر سکتی ہے اور پیپلز پارٹی ضلع بھر سے اپنے نظریات وٶٹرز کو بیلٹ بکس تک لے جا سکتی ہے جنھیں بلاول بھٹو کے کامیاب دورے نے پھر سے متحرک کردیا ہے۔
یاد رہے کہ پیپلز پارٹی چترال کی نسشت کو اپنے لیے نظریاتی طور پر بہت اہم سمجھتی ہے جہان سے چند عشرے پہل بیگم نصرت بھٹو الیکشن جیت چکی ہیں۔
باوثوق زراٸع کے مطابق بلاول نے چترال میں بھرپور الیکشن مہم پر زور دیا ہے اور کسی بھی پارٹی سے انتخابی اتحاد کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ ساتھ ساتھ چترال کے واحد قومی اسمبلی کی سیٹ کے لیے بےنظیر بھٹو کی بیٹی آصفہ بھٹو کو بھی میدان میں اتارنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
ایسے میں چترال سے صوباٸی اسمبلی کی دو نشتوں کے لیے انتخابی مہم میں صحیح مقابلے کے لیے پیپلز پارٹی کو نوجوان وٶٹرز، نظریاتی خدمات اور زمینی حقاٸق کو مدنظر رکھ کر ٹکٹ دینا انتہاٸی اہمیت کا حامل فیصلہ ہو گا۔